डॉ. फ़िरदौस ख़ान
आदि अदृश्य नदी सरस्वती के तट पर बसे हरित प्रदेश हरियाणा अकसर जाना होता है. बदलाव की बयार ऐसी चली है कि हर बार कुछ न कुछ नया दिखाई पड़ता है. पहले जहां खेतों में सब्ज़ियों की बहार होती थी, वहीं अब मकान बन रहे हैं. खेत सिकुड़ रहे हैं और बस्तियां फैलती जा रही हैं. दरअसल, आधुनिकता की अंधी दौड़ ने परिवेश को इतना प्रभावित किया है कि कितनी ही प्राचीन संस्कृतियां अब इतिहास का विषय बनकर रह गई हैं. परिवर्तन प्रकृति का नैसर्गिक नियम है, और यह शाश्वत सत्य भी है, लेकिन धन के बढ़ते प्रभाव ने स्वाभाविक परिवर्तन को एक नकारात्मक मोड़ दे दिया है. हालात ये हो गए हैं कि व्यक्ति पैसे को ही सब कुछ मानने लगा है. रिश्ते-नाते, रीति-रिवाज उसके लिए महज़ ऐसे शब्द बनकर रह गए हैं, जिसकी उसे क़तई परवाह नहीं है. दूर देहात या गांव का नाम लेते ही ज़ेहन में जो तस्वीर उभरती थी, उसकी कल्पना मात्र से ही सुकून की अनुभूति होती थी. दूर-दूर तक लहलहाते हरे-भरे खेत, हवा के झोंकों से शाखों पर झूमते सरसों के पीले-पीले फूल, पनघट पर पानी भरती गांव की गोरियां, लोकगीतों पर थिरकती अल्ह़ड नवयुवतियां मानो गांव की समूची संस्कृति को अपने में समेटे हुए हों, लेकिन आज ऐसा नहीं है. पिछले तीन दशकों के दौरान हुए विकास ने गांव की शक्ल ही बदलकर रख दी है. गांव अब गांव न रहकर, शहर होते जा रहे हैं. गांव के शहरीकरण की प्रक्रिया में नैतिक मूल्यों का ह्रास हुआ है. हालत यह है कि एक परिवार को देखकर पड़ौसी के परिवार का रहन-सहन बदल रहा है. पूर्वजों के बनाए घर अब घर न रहकर, शहरी कोठियों की शक्ल अख्तियार कर रहे हैं. गांवों की चौपालें अब अपना स्वरूप लगभग खो चुकी हैं. शहरी सभ्यता का सबसे ज़्यादा असर उन गांवों पर पड़ा है, जो शहर की तलहटियों के साथ लगते हैं. ये गांव न तो गांव रहे हैं और न ही पूरी तरह शहर बन पाए हैं. पहले ग्रामीण अंचलों में सांग न केवल मनोरंजन का साधन होते थे, बल्कि नैतिक शिक्षा का भी सशक्त माध्यम होते थे. प्राचीन समृद्ध लोक संस्कृति की परंपरा वाले प्रदेश हरियाणा में आज सांस्कृतिक और शैक्षणिक पिछ़डेपन के कारण लोककलाएं पार्श्व में जा रही हैं. लुप्त हो रही ग्रामीण संस्कृति को संभाल पाने की दिशा में कोई विशेष प्रयास नहीं हुए हैं. शौर्यपूर्ण, लेकिन सादा और सहज जीवन जीने वाले हरियाणा के लोगों में आज जीवन के उच्च मूल्यों की उपेक्षा हो रही है. पैसे और ताक़त की अपसंस्कृति हर तरफ़ पनपती दिखाई देती है.
हरियाणा विशेष रूप से ग्रामीण संस्कृति का प्रदेश रहा है. यहां के गांव प्राचीन समय से संस्कृति और सामाजिक गतिविधियों के केंद्र रहे हैं. गीता का जन्मस्थान होने का गौरव भी श्रीकृष्ण ने इसी प्रदेश को दिया, लेकिन कितने अफ़सोस की बात है कि ग्रामीण अपनी गौरवशाली संस्कृति को दरकिनार कर शहर की पाश्चात्य संस्कृति की गर्त में समा जाना चाहते हैं. ये लोग रोज़ी-रोटी की तलाश में शहरों में जाते हैं और अपने साथ गांव में लेकर आते हैं नशे की आदत, जुआखोरी और ऐसी ही कई अन्य बुराइयां, जो ग्रामीण जीवन को दूषित करने पर आमादा है. नतीजा सबके सामने है, गांवों में भाईचारे की भावना ख़त्म होती जा रही है और ग्रामीण गुटबाज़ी का शिकार हो रहे हैं. लोग गांवों से निकलकर शहरों की तरफ़ भागने लगे हैं, क्योंकि उनका गांवों से मोह भंग हो रहा है. इतना ही नहीं, अब धीरे-धीरे गांव भी फार्म हाउस कल्चर की चपेट में आ रहे हैं. अपनी पहचान खो चुका धनाढ्य वर्ग अब सुकून की तलाश में दूर देहात में ज़मीन ख़रीदकर फार्म हाउसों का निर्माण करने की होड़ में लगा है.
शहर की बुराइयों को देखते हुए यह चिंता जायज़ है कि गांव की सहजता अब धीरे-धीरे मर रही है. तीज-त्योहारों पर भी गांवों में पहले वाली वह रौनक़ नहीं रही है. शहरवासियों की तरह ग्रामीण भी अब बस रस्म अदायगी ही करने लगे हैं. शहर और गांवों के बीच पुल बने मीडिया ने शहर की अच्छाइयां गांवों तक भले ही न पहुंचाई हों, पर वहां की बुराइयां गांव तक ज़रूर पहुंचा दी हैं. अंधाधुंध शहरीकरण के ख़तरे आज हर तरफ़ दिखाई दे रहे हैं. समाज का तेज़ी से विखंडन हो रहा है. समाज परिवार की लघुतम इकाई तक पहुंच गया है, यानी लोग समाज के बारे में न सोचकर सिर्फ़ अपने और अपने परिवार के बारे में ही सोचते हैं. इसलिए हमें यह कोशिश करनी चाहिए कि गांव सुविधाओं के मामले में कुछ-कुछ शहर बने रहें, लेकिन संस्कृति के मामले में गांव ही रहें. मगर तब तक ऐसा संभव नहीं हो सकता, जब तक विकास की हमारी अवधारणा आयातित होती रहेगी और उदारीकरण के प्रति हमारा नज़रिया नहीं बदलेगा. आज शहर पूरी तरह से पाश्चात्य संस्कृति के प्रभाव में आ चुके हैं और अब शहरों के साथ लगते गांव भी इनकी देखादेखी अपनी संस्कृति से दूर होते जा रहे हैं.
विकास के अभाव में गांव स्वाभाविक रूप से आत्मनिर्भरता की तरफ़ क़दम नहीं बढ़ा पाए. ऐसे में रोज़गार की तलाश में गांव के युवकों का शहर की तरफ़ पलायन शुरू होना और शहर की बुराइयों से उनका रूबरू होना, हैरत की बात नहीं है. लेकिन इस सबके बावजूद उम्मीद बरक़रार है कि वह दिन ज़रूर आएगा, जब लोग पाश्चात्य संस्कृति के मोहजाल से निकलकर अपनी संस्कृति की तरफ़ लौटेंगे. काश, वह दिन जल्द आ जाए. हम तो यही दुआ करते हैं. आमीन...
کسی فن پارے پر لکھنا کتنا جاںفشانی کا کام ہے، اس کا کچھ کچھ اندازہ مجھے بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک تنقید نگار کا قلم تحریر کے لیے ہمہ وقت آزاد ہے ، وہ جو محسوس کرتا ہے ،سمجھتا ہے سوچتا ہے، اور اس کو ٹھیک لگتا ہے وہی لکھتا ہے۔ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ دیانت داری کے ساتھ آپ جیسے زی شعور، اور صاحب دانش اب کم ہی ہیں جو بے باکی کے ساتھ اپنا مطمع نگاہ بیان کرتے ہیں۔میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ایک کم علم شخص ہوں اور محض کچھ تک بندی کرنے کی حد تک شاعر ہوں مگر پھر بھی گزشتہ 50 برسوں سے اردو شاعری کی ہر نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہوں (خواہ وہ نگاہ خام ہی سہی ). دوسرا اعتراف یہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں وائس ٹائپنگ سے ٹائپ کرتا ہوں اردو کی - بورڈ پر ٹائپ کرنے کی مجھے مشق نہیں ہے۔
بہرحال بہت مبارک باد کہ آپ نے شارق کیفی کی جملہ شاعری کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ان کی غزلوں ، ان کی نظموں اور ان کے تخیل پر کھل کر بات کی۔
اپ نے جس نظم کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ یہ محض ہیت کے اعتبار سے نظم ہے تخیل اور فلسفے سے دور ۔ اس کے آخری مصرعے ایک بار پھر پڑھتے ہیں۔
اب مجھے اس زمین پر نہیں لوٹنا
حاضری کے بغیر
اس زمین سے میرا لوٹنا ہی یہ ثابت کرے گا کہ میں
اک فرشتہ تھا
اور اس جہاں میں غلط آگیا تھا
میری ناقص فہم کے مطابق ایسی نظمیں جن میں ظاہر ہے کہ ہیت تو ہو ہی،مگر جو کسی غیر معمولی تخیل کو لے کر ایک ایسے نفسیاتی موضوع پر لکھیی جائیں یا یوں کہیے کہ کہی جائیں کہ جن کی دسترس یعنی جن موضوعات کی دسترس عوام الناس کو کم ہی میسر ہوتی ہے یا پھر بہت غور کرنے پر وہ سمجھتا ہے، ایک قسم کا فلسفہ رکھتی ہیں۔ زندگی اور موت کا فلسفہ، بیماری اور بیماری کے بعد شفایاب نہ ہونے کا کرب ۔
بس بہت جی لیے۔۔۔۔سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس بلا کے کرب میں ڈوب کر کہی گئی نظم ہوگی اور ظاہر ہے شاعر کی نگاہ سماج کی اس باریک نبض پر ہوگی جس میں بحیثیت انسان اس کی پہچان بس ایک مریض کی حاضری بھر،کسی ہسپتال میں پکارے جانے بھر رہ گئی ہو۔میں عرض کر دوں یہ جیتا جاگتا مریض، کبھی بے مرض جسم تھا تب اس کی کچھ اور پہچان تھی تب اس کا نام لینے والے اور نام سننے والے کچھ اور لوگ رہے ہوں گے جہاں اس کو اپنا نام اور اپنی پہچان بہت عزیز ہوگی مگر ایک لمبے عرصے تک بیماری سے لاغر ہو جانے کے بعد یہ جسم اب بس نجات چاہتا ہے نجات یعنی موکش۔ شارق کیفی کی اس نظم کی نفسیات اور فلسفہ حیران کر دینے والا ہے۔
میں عرض کر دوں کہ شارق کیفی کے یہاں جو بھی مضامین اپنی نظموں میں برتے گئے ہیں وہ حیران کن حد تک انسانی زندگی کے بہت قریب ہیں، انسانی نفسیات کے بہت قریب ہیں، انسانی دکھوں اور خوشیوں کے بہت قریب ہیں، آلام و آفات کے بہت قریب ہیں، مسائل کے بہت قریب ہیں،اکثر ان نظموں میں متکلم پس پردہ ہے وہ شاعر نہیں ہے بلکہ کسی اور کی زبان اور کسی اور کا احساس ہے۔ یہ حیران کن تجربے کہیں اور دیکھنے کو مشکل سے ہی ملیں گے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ" گھسے پٹے" خیالات ہیں۔ قابل احترام پروفیسر صاحب!
اس دنیا کے چپے چپے اور خطے خطے میں سوچنے والے ذہن آباد ہیں جن کے وہی مسائل ہیں جو دوسروں کے ہیں ان کے دکھ درد،ان کے فراق و وصال،ان کی شفایابی اور امراض،ان کی نفسیات،ان کے تجربات،ان کے تجزیات،ان کی اکتاہٹیں،ان کی مسکراہٹیں،ان کے نظریات گویا سب کچھ مشترک ہیں۔اب ان مشترک قدروں میں تقریبا ایک جیسی باتیں سوچی جاتی ہیں۔مضامین وہی رہتے ہیں بس ان کو پیش کرنا اپنے طور پر ان کا تجزیہ کرنا اپنے طریقے سے ان کو سمجھانا اپنے انداز میں ان کو نظم کے پیکر میں ڈھالنا یہ کمال ایک شاعر کا ہوتا ہے۔میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کروں کہ مضامین کی کاشت ممکن نہیں ہے ہاں ان کی دریافت مشکل ہے۔مضامین تو گھسے پٹے ہی رہیں گے مگر کون سے ایسے شعراء ہیں جن کے مضامین اپنی سالمیت کے اعتبار سے اول صف میں کھڑے نظر آئیں
شارق کیفی جب اپنا پہلا مجموعہ کرام عام سا رد عمل ترتیب دے رہے تھے ، تو ادب کا ایک دور آخری سانسیں لے رہا تھا یعنی جدید طرز کی شاعری اختتام پذیر ہو رہی تھی یا ہو گئی تھی اور ما بعد جدید نظریات اور افکار جنم لے رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ن م مراشد ، میرا جی یا اور دیگر اسی صف کے شعراء اپنے حصے کا کام کر چکے تھے اب باری تھی ما بعد جدید شعرا کی کہ وہ مسائل کو اپنے طور پر سوچیں اور اپنے طور پر برتیں ، چنانچہ شارق کیفی نے ایسا ہی کیا۔
آپ کا یہ فرمانا کہ کوئی نظم بھاری بھرکم الفاظ سے بڑی نہیں ہوتی یعنی ڈاکٹر ،رجسٹر، بجلی کے جھٹکے وغیرہ ان الفاظ سے کوئی نظم بڑی ہو جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔مگر بہت ادب کے ساتھ میں عرض کر دوں کہ یہ نظم الفاظ سے بڑی نہیں ہوئی ہے نفسیات سے بڑی ہوئی ہے۔ الفاظ تو گویا دست بستہ کھڑے نظر اتے ہیں۔
آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر، مگر میری التجا ہے کہ ان نظموں کو ایک بار اپ کی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ اپ نے قبرستان کے نل پر ،مشق، کینسر کے مریض کی بڑ بڑ ، ببلو کا بکرا اور محبت کی انتہا نظم ضرور پڑھی ہوں گی۔ یہ محض مثالیں ہیں کہ ایک شاعر جس کی انگلیاں ایک نباض کی طرح ہمیشہ انسانی نفسیات کی کلائی پر رہتی ہیں، جس کے پاس بیانیہ بہت خاص ہے، مضامین دل میں اتر جانے والے ہیں، نظمیں حیران کر دینے والی ہے۔ کیا آپ ما بعد جدید شاعری کے اس خالق کے اس وصف سے اتفاق نہیں کرتے !
میں عرض کر دوں " محبت کی انتہا " ایک عجیب و غریب انداز میں شروع ہوئی نظم ہے جس میں ایک کم سن بچہ اپنے چین اسموکر والد سے ، شدید محبت کرتا ہے مگر ان کی سگرٹ نوشی سے شدید نفرت کرتا ہے اور محبت اور نفرت کا یہ امتزاج اس نفسیاتی سطح تک آکر ایک ہیبت ناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ ہیبت ناکی جو ہمہ وقت شاعر کو اس کے والد کے فوت ہو جانے کے خطرے سے باخبر رکھتی ہے۔ یہ نظم شروع بھی بڑے حسین انداز میں ہوئی ہے
پاپا تم مر جاؤ نہ پاپا
میں تم سے نفرت کرتا ہوں
کش تم لیتے ہو
کھانسی مجھ کو آتی ہے۔۔
اس انداز میں نظمیں کہنے والا شاعر میری نظر میں شارق کیفی کے علاوہ دوسرا نہیں ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :
"میں نے یہ نظمیں بارہا پڑھی ہیں اور ہر بار حیرت زدہ ہوا ہوں یہ نظمیں تقریبا سب کی سب واحد متکلم کی زبان سے ادا کی گئی ہیں۔ لیکن یہ واحد متکلم ایک شخص نہیں۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کسی ایک شاعر کے تخیل یا اس کی شخصیت میں اتنے سارے متکلم اور اتنی طرح کے متکلم جمع ہو گئے ہوں۔ ڈرامے میں یہ یقینا ممکن ہے اگرچہ یہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔۔۔"
لہذا میں ایک ادنی، ناقص العقل، کم علم قاری ہونے کے باوجود آپ سے التماس کروں گا کہ ان نظموں کو ایک بار پھر پڑھیں ممکن ہے آپ کی آرا میں کسی قسم کی تبدیلی واقع ہو
گزشتہ شب بھی یہ کمنٹ میں پوسٹ کرنا چاہ رہا تھا،مگر کسی تکنیکی دقت کی وجہ سے آپ کی وال پر پوسٹ نہیں ہو سکا۔ چنانچہ اس کو اپنی وال پر پوسٹ کر کے اپ کو ٹیگ کر رہا ہوں شکریہ
سہیل آزاد
जो जले हैं उम्र भर यारों चराग़ों की तरह
वो रहे सब की निगाहों में उजालों की तरह
मात खाते हैं हमेशा होशियारों की तरह
लोग भूले हैं उन्हें अदबी रिसालों की तरह
वो ख़िज़ाओं में रहे हरदम बहारों की तरह
थाम के दिल बैठ जाएं हम बेचारों की तरह
अपनी फितरत है मियाँ नद्दी के धारों की तरह
हो गए वीरान हम उर्दू इदारों की तरह
हम चमक उठेंगे रातों को सितारों की तरह
लौट के आएंगे वो इक रोज़ यारों की तरह
इरशाद अज़ीज़
Land
फ़िरदौस ख़ान
लफ़्ज़ों के जादूगर और हर दिल अज़ीज़ शायर साहिर का असली नाम अब्दुल हयी साहिर था, लेकिन उन्होंने इसे बदल कर साहिर लुधियानवी रख लिया था. उनका जन्म 8 मार्च, 1921 में लुधियाना के एक जागीरदार घराने में हुआ था. उनके पिता बेहद अमीर थे. घर में किसी चीज़ की कमी नहीं थी, लेकिन माता-पिता के अलगाव के बाद वह अपनी मां के साथ रहे और इस दौरान उन्हें ग़ुरबत में दिन गुज़ारने पड़े. उन्होंने लुधियाना के ख़ालसा हाईस्कूल से दसवीं की. गवर्नमेंट कॉलेज से 1939 में उन्हें निकाल दिया गया था. बाद में इसी कॉलेज में वह मुख्य अतिथि बनकर आए थे. यहां से संबंधित उनकी नज़्म बहुत मशहूर हुई-
इस सर ज़मीन पे आज हम इक बार ही सही
दुनिया हमारे नाम से बेज़ार ही सही
लेकिन हम इन फ़िज़ाओं के पाले हुए तो हैं
गर यहां नहीं तो यहां से निकाले हुए तो हैं...
1943 में वह लाहौर आ गए और उसी साल उन्होंने अपना पहला कविता संग्रह तलखियां शाया कराया, जो बेहद लोकप्रिय हुआ और उनकी ख्याति दूर-दूर तक फैल गई. इसके बाद 1945 में वह प्रसिद्ध उर्दू पत्र अदब-ए-लतीफ़ और शाहकार लाहौर के संपादक बन गए. बाद में वह द्वैमासिक पत्रिका सवेरा के भी संपादक बने. इस पत्रिका में उनकी एक नज़्म को पाकिस्तान सरकार ने अपने ख़िलाफ़ बग़ावत मानते हुए उनके विरुद्ध वारंट जारी कर दिया. 1949 में उन्होंने लाहौर छोड़ दिया और दिल्ली आ गए. यहां उनका दिल नहीं लगा और वह मुंबई चले आए. वहां वह उर्दू पत्रिका शाहराह और प्रीतलड़ी के संपादक बने. इसी साल उन्होंने फ़िल्म आज़ादी की राह के लिए गीत लिखे. संगीतकार सचिन देव बर्मन की फ़िल्म नौजवान के गीत ठंडी हवाएं लहरा के आएं…ने उन्हें प्रसिद्धि दिलाई. इसके बाद उन्होंने मुड़कर नहीं देखा. उन्होंने सचिन देव बर्मन के अलावा, एन दत्ता, शंकर जयकिशन और ख़य्याम जैसे संगीतकारों के साथ काम किया. साहिर एक रूमानी शायर थे. उन्होंने ज़िंदगी में कई बार मुहब्बत की, लेकिन उनका इश्क़ कभी परवान नहीं चढ़ पाया. वह अविवाहित रहे. कहा जाता है कि एक गायिका ने फ़िल्मों में काम पाने के लिए साहिर से नज़दीकियां बढ़ाईं और बाद में उनसे किनारा कर लिया. इसी दौर में साहिर ने एक ख़ूबसूरत नज़्म लिखी-
चलो इक बार फिर से
अजनबी बन जाएं हम दोनों
चलो इक बार फिर से…
न मैं तुमसे कोई उम्मीद रखूं दिलनवाज़ी की
न तुम मेरी तरफ़ देखो ग़लत अंदाज़ नज़रों से
न मेरे दिल की धड़कन लड़खड़ाए मेरी बातों से
न ज़ाहिर हो तुम्हारी कशमकश का राज़ नज़रों से
चलो इक बार फिर से…
साहिर ने फ़िल्मी दुनिया में भी अपनी शायरी का कमाल दिखाया. उनके गीतों और नज़्मों का जादू सिर चढ़कर बोलता था. उनका नाम जिस फ़िल्म से जु़ड जाता था, उसमें वह सर्वोपरि होते थे. वह किसी के सामने नहीं झुकते थे, चाहे वह लता मंगेशकर हों या फिर सचिन देव बर्मन. वह संगीतकार से ज़्यादा मेहनताना लेते थे और ताउम्र उन्होंने इसी शर्त पर फ़िल्मों में गीत लिखे. हर दिल अज़ीज़ इस शायर ने कभी घुटने नहीं टेके, न शायरी में और न सिनेमा में. उनकी आन-बान-शान किसी फ़िल्मी सितारे से कम न थी. उन्हें भी फ़िल्मी सितारों की तरह चमचमाती महंगी गाड़ियों का शौक़ था. अपनी फ़ितरत की वजह से वह आलोचनाओं का भी शिकार रहे. वह अपने गीत को समूची फ़िल्म कृति से भारी समझते थे और इस बात को वह डंके की चोट पर कहते भी थे. यश चोपड़ा की फ़िल्म कभी-कभी के गीतों को याद कीजिए. फ़िल्म की शुरुआत में ही साहिर के दो गीत रखे गए, जो बेहद लोकप्रिय हुए-
कभी-कभी मेरे दिल में ख़्याल आता है
कि जैसे तुझको बनाया गया है मेरे लिए
तू अबसे पहले सितारों में बस रही थी कहीं
तुझे ज़मीं पे बुलाया गया है मेरे लिए…
मैं पल दो पल का शायर हूं
पल दो पल मेरी जवानी है
पल दो पल मेरी हस्ती है
पल दो पल मेरी कहानी है…
साहिर सिर्फ़ अपने लिए ही नहीं, दूसरों के लिए भी सिद्धांतवादी थे. वह लाहौर में साहिर साक़ी नामक एक मासिक उर्दू पत्रिका निकालते थे. पत्रिका घाटे में चल रही थी. साहिर की हमेशा यह कोशिश रहती थी कि कम ही क्यों न हो, लेकिन लेखक को उसका मेहनताना ज़रूर दिया जाए. एक बार वह ग़ज़लकार शमा लाहौरी को वक़्त पर पैसे नहीं भेज सके. शमा लाहौरी को पैसों की सख्त ज़रूरत थी. वह ठंड में कांपते हुए साहिर के घर पहुंच गए. साहिर ने उन्हें चाय बनाकर पिलाई. इसके बाद उन्होंने खूंटी पर टंगा अपना महंगा कोट उतारा और उन्हें सौंपते हुए कहा, मेरे भाई, बुरा न मानना, लेकिन इस बार नक़द के बदले जिंस में मेहनताना क़ुबूल कर लो. ऐसे थे साहिर. 25 अक्टूबर, 1980 को दिल का दौरा पड़ने से उनका निधन हो गया, लेकिन अपनी शायरी की बदौलत वह गीतों में आज भी ज़िंदा हैं. उनकी महान रचनाओं ने उन्हें अमर कर दिया है. रहती दुनिया तक लोग उनके गीत गुनगुनाते रहेंगे.
कि ज़िन्दगी तेरी ज़ुल्फ़ों की नर्म छांव में
गुज़रने पाती तो शादाब हो भी सकती थी
ये तीरगी जो मेरी ज़ीस्त का मुक़द्दर है
तेरी नज़र की शुआओं में खो भी सकती थी
अजब न था के मैं बेगाना-ए-अलम रह कर
तेरे जमाल की रानाइयों में खो रहता
तेरा गुदाज़ बदन तेरी नीमबाज़ आंखें
इन्हीं हसीन फ़सानों में महव हो रहता
पुकारतीं मुझे जब तल्ख़ियां ज़माने की
तेरे लबों से हलावट के घूंट पी लेता
हयात चीखती फिरती बरहना-सर, और मैं
घनेरी ज़ुल्फ़ों के साये में छुप के जी लेता
मगर ये हो न सका और अब ये आलम है
के तू नहीं, तेरा ग़म, तेरी जुस्तजू भी नहीं
गुज़र रही है कुछ इस तरह ज़िन्दगी जैसे
इसे किसी के सहारे की आरज़ू भी नहीं
ज़माने भर के दुखों को लगा चुका हूं गले
गुज़र रहा हूं कुछ अनजानी रह्गुज़ारों से
महीब साये मेरी सम्त बढ़ते आते हैं
हयात-ओ-मौत के पुरहौल ख़ारज़ारों से
न कोई जादह-ए-मंज़िल न रौशनी का सुराग़
भटक रही है ख़लाओं में ज़िन्दगी मेरी
इन्हीं ख़लाओं में रह जाऊंगा कभी खोकर
मैं जानता हूं मेरी हमनफ़स मगर फिर भी
कभी कभी मेरे दिल में ख़याल आता है
-साहिर लुधियानवी
देवमणि पांडेय
अमृता प्रीतम के लिए साहिर दोपहर की नींद में देखे गए किसी हसीन ख़्वाब की तरह थे। दोपहर की नींद टूटने के बाद भी ख़्वाब की ख़ुमारी घंटों छाई रहती है। अमृता प्रीतम के ज़हन पर साहिर के ख़्वाब की ख़ुमारी ताज़िंदगी छाई रही। एक दिन अमृता प्रीतम ने अपने शौहर सरदार प्रीतम से तलाक़ ले लिया मगर उनका सरनेम ताउम्र अपने पास रखा। सन् 1960 में अमृता ने मुंबई आने का इरादा किया। सुबह ब्लिट्ज अख़बार पर नज़र पड़ी। साहिर और सुधा मल्होत्रा के फोटो के नीचे लिखा था- साहिर की नई मुहब्बत। चित्रकार इमरोज़ के स्कूटर पर बैठ कर उनकी पीठ पर अंगुलियों से साहिर का नाम लिखने वाली अमृता ने शादी किए बिना इमरोज़ के साथ घर बसा लिया।
सब्ज़ शाख़ पर इतराते हुए किसी सुर्ख़ गुलाब की तरह सिने जगत में सुधा मल्होत्रा की दिलकश इंट्री हुई। काली ज़ुल्फें, गोरा रंग, बोलती हुई आंखें, हया की सुर्ख़ी से दमकते हुए रुख़सार और लबों पर रक़्स करती हुई मोहक मुस्कान ... सचमुच सुधा मल्होत्रा का हुस्न मुकम्मल ग़ज़ल जैसा था। साहिर ने इस ग़ज़ल पर एक नज़्म लिख डाली-
कभी-कभी मेरे दिल में ख़याल आता है
कि जैसे तुझको बनाया गया है मेरे लिए
तू इससे पहले सितारों में बस रही थी कहीं
तुझे ज़मीं पर बुलाया गया है मेरे लिए
चेतन आनंद की फ़िल्म के लिए संगीतकार ख़य्याम ने सुधा मल्होत्रा और गीता दत्त की आवाज़ में इस नज़्म को रिकॉर्ड किया। फ़िल्म नहीं बन सकी। इसी नज़्म को केंद्र में रखकर यश चोपड़ा ने एक कहानी तैयार की। इस पर एक यादगार फ़िल्म 'कभी कभी' बनी। फ़िल्म की नायिका राखी की तरह सुधा मल्होत्रा ने भी अचानक शादी कर ली थी।
फ़िल्म 'भाई बहन' (1959) में सुधा मल्होत्रा की गायकी से साहिर बेहद मुतास्सिर हुए। फ़िल्म 'दीदी' के संगीतकार एन दत्ता बीमार पड़ गए। साहिर की गुज़ारिश पर गायिका सुधा मल्होत्रा ने साहिर की नज़्म को कंपोज़ किया। सुधा की आवाज़ में यह नज़्म रिकॉर्ड हुई-
तुम मुझे भूल भी जाओ तो ये हक़ है तुमको
मेरी बात और है मैंने तो मुहब्बत की है
साहि की शख़्सियत पर मुहब्बत का रंग छाने लगा था। फ़िल्म 'बरसात की रात' (1960) में साहिर ने गायिका सुधा मल्होत्रा के लिए सिफ़ारिश की। सुधा मल्होत्रा के हुस्न में तपिश थी मगर उनकी गायिकी भी दमदार थी। फ़िल्म की बेमिसाल क़व्वाली में उनकी गायकी का कमाल देखने लायक़ है-
ना तो कारवाँ की तलाश है,
ना तो हमसफ़र की तलाश है.
मेरे शौक़-ए-ख़ाना ख़राब को,
तेरी रहगुज़र की तलाश है
मीडिया ने सुधा मल्होत्रा को साहिर की नई मुहब्बत के रूप में प्रचारित किया। भोपाल से मुम्बई आईं सुधा मलहोत्रा की उम्र महज 23 साल थी। मगर वे अमृता प्रीतम की तरह दिन में ख़्वाब देखने वाली जज़्बाती लड़की नहीं थीं। उन्होंने घोषणा कर दी कि वे अब फ़िल्मों के लिए नहीं गाएंगी। दूसरा नेक काम सुधा मलहोत्रा ने ये किया कि अपने बचपन के दोस्त शिकागो रेडियो के मालिक गिरधर मोटवानी से तुरंत शादी कर ली। फ़िल्मी चकाचौंध से दूर अपने घर की दहलीज़ में आस्था का दीया जलाकर सुधा मल्होत्रा गा रहीं थीं-
न मैं धन चाहूँ न रतन चाहूँ
तेरे चरणों की धूल मिल जाए
तो मैं तर जाऊं
राज कपूर ने सुधा मल्होत्रा की आवाज़ में एक ग़ज़ल सुनी। वे सुधा के घर गए। सुधा ने कहा- राज साहब, अब मैं फ़िल्मों के लिए नहीं गाती। उनके आग्रह पर सुधा ने अमेरिका अपने शौहर को फ़ोन किया। शौहर ने अनुमति दी। फ़िल्म 'प्रेम रोग' में सुधा मलहोत्रा ने एक गीत गाया-
ये प्यार था या कुछ और था
न तुझे पता न मुझे पता
अब्दुल हई उर्फ़ साहिर ने नज़्म की शक्ल में अपनी पहली मुहब्बत ऐश कौर को एक ख़त लिखा था। नतीजा ये हुआ कि कॉलेज प्रशासन ने साहिर को कॉलेज से निकाल दिया। साहिर के दिल में न जाने कैसा ख़ौफ़ बैठ गया कि उन्होंने न तो अमृता प्रीतम से अपनी मुहब्बत का इज़हार किया और न ही सुधा मल्होत्रा से। उनकी ख़ामोशी में उनका इज़हार पोशीदा था। मुहब्बत उनके लिए हसीन ख़्वाबों की एक धनक थी जिसका दूर से वे दीदार किया करते थे। अपनी तनहाइयों को रोज़ शाम को वे जाम से आबाद किया करते थे। मगर दुनिया को साहिर मुहब्बत के ऐसे तराने दे गए जिसमें धड़कते दिलों की गूंज सुनाई पड़ती है।
साहिर अपने गीतों में नया रंग और नई ख़ुशबू लेकर आए। देश, समाज और वक़्त के मसाईल के साथ उनके गीतों में एहसास और जज़्बात की ऐसी नक़्क़ाशी है जिससे उनके गीत बिल्कुल अलग नज़र आते हैं। एक जुमले में किसी अहम् बात को साहिर इतनी ख़ूबसूरती से कह देते हैं कि सुनने वाला मंत्रमुग्ध हो जाता है- जो बात तुझमें है तेरी तस्वीर में नहीं।
8 मार्च 1921 को लुधियाना में जन्मे साहिर लुधियानवी का यह जन्म शताब्दी वर्ष है। साहिर ने चार मिसरे अपने लिए कहे थे। वो आपके लिए पेश हैं-
न मुंह छुपा के जिए हम न सर झुका के जिए
सितमगरों की नज़र से नज़र मिलाके जिए
अब एक रात अगर कम जिए तो कम ही सही
यही बहुत है कि हम मशअलें जलाके जिए
डॉ. फ़िरदौस ख़ान
अबुल हसन ख़रक़ानी प्रसिद्ध सूफ़ी संत हैं. उनका असली नाम अबुल हसन हैं, मगर ख़रक़ान में जन्म लेने की वजह से वे अबुल हसन ख़रक़ानी के नाम से विख्यात हुए. सुप्रसिद्ध ग्रंथकार हज़रत शेख़ फ़रीदुद्दीन अत्तार के मुताबिक़ एक बार सत्संग में अबुल हसन ख़रक़ानी ने बताया कि उन्हें उस वक़्त की बातें भी याद हैं, जब वे अपनी मां के गर्भ में चार महीने के थे.
अबुल हसन ख़रक़ानी एक चमत्कारी संत थे, लेकिन उन्होंने कभी लोगों को प्रभावित करने के लिए अपनी दैवीय शक्तियों का इस्तेमाल नहीं किया. वे कहते हैं कि अल्लाह अपने यश के लिए चमत्कार दिखाने वालों से चमत्कारी शक्तियां वापस ले लेता है. उन्होंने अपनी शक्तियों का उपयोग केवल लोककल्याण के लिए किया. एक बार उनके घर कुछ मुसाफ़िर आ गए, जो बहुत भूखे थे. उनकी पत्नी ने कहा कि घर में दो-चार ही रोटियां हैं, जो इतने मेहमानों के लिए बहुत कम पड़ेंगी. इस पर अबुल हसन ख़रक़ानी ने कहा कि सारी रोटियों को साफ़ कपड़े से ढककर मेहमानों के सामने रख दो. उनकी पत्नी ने ऐसा ही किया. मेहमानों ने भरपेट रोटियां खाईं, मगर वे कम न पड़ीं. मेहमान तृप्त होकर उठ गए, तो उनकी पत्नी ने कपड़ा हटाकर देखा, तो वहां एक भी रोटी नहीं थी. इस पर अबुल हसन ख़रक़ानी ने कहा कि अगर और भी मेहमान आ जाते, तो वे भी भरपेट भोजन करके ही उठते.
वे बाहरी दिखावे में विश्वास न रखकर कर्म में यकीन करते थे. वे कहते हैं कि जौ और नमक की रोटी खाने या टाट के वस्त्र पहन लेने से कोई सूफ़ी नहीं हो जाता. अगर ऐसा होता, तो ऊन वाले और जौ खाने वाले जानवर भी सूफ़ी कहलाते. अबुल हसन ख़रक़ानी कहते हैं कि सूफ़ी वह है जिसके दिल में सच्चाई और अमल में निष्ठा हो. वे शिष्य नहीं बनाते थे, क्योंकि उन्होंने भी स्वयं किसी गुरु से दीक्षा नहीं ली थी. वे कहते थे कि उनके लिए अल्लाह ही सब कुछ है. मगर इसके साथ ही उनका यह भी कहना था कि सांसारिक लोग अल्लाह के इतने करीब नहीं होते, जितने संत-फ़कीर होते हैं. इसलिए लोगों को संतों के प्रवचनों का लाभ उठाना चाहिए, क्योंकि संतों का तो बस एक ही काम होता है अल्लाह की इबादत और लोककल्याण के लिए सत्संग करना.
एक बार किसी क़ाफ़िले को ख़तरनाक रास्ते से यात्रा करनी थी. क़ाफ़िले में शामिल लोगों ने अबुल हसन ख़रक़ानी से आग्रह किया कि वे उन्हें कोई ऐसी दुआ बता दें, जिससे वे यात्रा की मुसीबतों से सुरक्षित रहें. इस पर उन्होंने कहा कि जब भी तुम पर कोई मुसीबत आए, तो तुम मुझे याद कर लेना. मगर लोगों ने उनकी बात को गंभीरता से नहीं लिया. काफ़ी दूरी तय करने के बाद एक जगह डाकुओं ने क़ाफ़िले पर धावा बोल दिया. एक व्यक्ति जिसके पास बहुत-सा धन और क़ीमती सामान था, उसने अबुल हसन ख़रक़ानी को याद किया. जब डाकू क़ाफ़िले को लूटकर चले गए, तो क़ाफ़िले वालों ने देखा कि उनका तो सब सामान लुट चुका है, लेकिन उस व्यक्ति का सारा सामान सुरक्षित है. लोगों ने उससे इसकी वजह पूछी, तो उस व्यक्ति ने बताया कि उसने अबुल हसन ख़रक़ानी को याद कर उनसे सहायता की विनती की थी. इस वाक़िये के कुछ वक़्त बाद जब क़ाफ़िला वापस ख़रक़ान आया, तो लोगों ने अबुल हसन ख़रक़ानी से कहा कि हम अल्लाह को याद करते रहे, मगर हम लुट गए और उस व्यक्ति ने आपका नाम लिया, तो वह बच गया. इस पर अबुल हसन ख़रक़ानी ने कहा कि तुम केवल ज़ुबानी तौर पर अल्लाह को याद करते हो, जबकि संत सच्चे दिल से अल्लाह को याद करते हैं. अगर तुमने मेरा नाम लिया होता, तो मैं तुम्हारे लिए अल्लाह से दुआ करता.
एक बार वे अपने बाग की खुदाई कर रहे थे, तो वहां से चांदी निकली. उन्होंने उस जगह को बंद करके दूसरी जगह से खुदाई शुरू की, तो वहां से सोना निकला. फिर तीसरी और चौथी जगह से खुदाई शुरू की, तो वहां से भी हीरे-जवाहरात निकले, लेकिन उन्होंने किसी भी चीज़ को हाथ नहीं लगाया और फ़रमाया कि अबुल हसन इन चीज़ों पर मोहित नहीं हो सकता. ये तो क्या अगर दोनों जहां भी मिल जाएं, तो भी अल्लाह से मुंह नहीं मोड़ सकता. हल चलाते में जब नमाज़ का वक़्त आ जाता, तो वे बैलों को छोड़कर नमाज़ अदा करने चले जाते. जब वे वापस आते तो ज़मीन तैयार मिलती.
वे लोगों को अपने कर्तव्यों का निष्ठा से पालन करने की सीख भी देते थे. अबुल हसन ख़रक़ानी और उनके भाई बारी-बारी से जागकर अपनी मां की सेवा करते थे. एक रात उनके भाई ने कहा कि आज रात भी तुम ही मां की सेवा कर लो, क्योंकि मैं अल्लाह की इबादत करना चाहता हूं. उन्होंने अपने भाई की बात मान ली. जब उनके भाई इबादत में लीन थे, तब उन्हें आकाशवाणी सुनाई दी कि ''अल्लाह ने तेरे भाई की मग़फ़िरत की और उसी के ज़रिये से तेरी भी मग़फ़िरत कर दी.'' यह सुनकर उनके भाई को बड़ी हैरानी हुई और उन्होंने कहा कि मैंने अल्लाह की इबादत की, इसलिए इसका पहला हकदार तो मैं ही था. तभी उसे ग़ैबी आवाज़ सुनाई दी कि ''तू अल्लाह की इबादत करता है, जिसकी उसे ज़रूरत नहीं है. अबुल हसन ख़रक़ानी अपनी मां की सेवा कर रहा है, क्योंकि बीमार ज़ईफ़ मां को इसकी बेहद ज़रूरत है.'' यानी, अपने माता-पिता और दीन-दुखियों की सेवा करना भी इबादत का ही एक रूप है. वे कहते थे कि मुसलमान के लिए हर जगह मस्जिद है, हर दिन जुमा है और हर महीना रमज़ान है. इसलिए बंदा जहां भी रहे अल्लाह की इबादत में मशग़ूल रहे. एक रोज़ उन्होंने ग़ैबी आवाज़ सुनी कि ''ऐ अबुल हसन जो लोग तेरी मस्जिद में दाख़िल हो जाएंगे उन पर जहन्नुम की आग हराम हो जाएगी और जो लोग तेरी मस्जिद में दो रकअत नमाज़ अदा कर लेंगे उनका हश्र इबादत करने वाले बंदों के साथ होगा.''
अपनी वसीयत में उन्होंने ज़मीन से तीस गज़ नीचे दफ़न होने की ख्वाहिश ज़ाहिर की थी. अबुल हसन ख़रक़ानी यह भी कहते थे कि किसी भी समाज को शत्रु से उतनी हानि नहीं पहुंचती, जितनी कि लालची विद्वानों और गलत नेतृत्व से होती है. इसलिए यह ज़रूरी है कि लोग यह समझें कि हक़ीक़त में उनके लिए क्या सही है और क्या ग़लत.
आये हो यहां तुम, पहले पहल, ये बस्ती है बेगानों की
है फ़र्क़ बहुत नादान मिरे ! कहने में अपना, होने में
जब ख़्वाब उचक ले आंखों से, इक याद पुराने मंज़र की
फिर चैन कहां बेदारी में, आराम किसे फिर सोने में
दिन टूट के बिखरा साहिल पर, कुछ रेत उड़ी कुछ शोर हुआ
फिर रात नयी सी, ख़र्च हुई, लहरों में लहर पिरोने में
यूँ ही न मुस्लिमीन का जज़्बा हुसैन हैं
इस्लाम के उरूज का चेहरा हुसैन हैं
इस्लाम के दरख़्त का साया हुसैन हैं
क़ल्बों में देखो आज भी ज़िंदा हुसैन हैं
दुखते हुए दिलों का सहारा हुसैन हैं
ईमाँ, सुकूँ, ग़ुरूर हमारा हुसैन हैं
इस्लाम के फ़लक पे सितारा हुसैन हैं
जन्नत की वादियों का नज़ारा हुसैन हैं
मंज़िल अगर ख़ुदा है तो रस्ता हुसैन हैं
नज़्म-संग्रह "परफ़्यूम" ख़यालों के शहर की कोई आम परफ़्यूम नहीं, बल्कि अदब की वह महक है जो ज़हन और दिल दोनों को मदहोश कर देती है। इस क़िताब को पढ़ते हुए ऐसा महसूस होता है कि आप किसी और की शाइरी नहीं, बल्कि अपने अंदर की कश्मकश, उदासी और अधूरी सोच को पढ़ रहे हैं।
सिराज फ़ैसल ख़ान की नज़्में एक तरफ़ रिवायती नज़्मों की नज़ाकत समेटे हुए है, तो दूसरी तरफ़ आज़ाद नज़्मों की जदीद सोच भी रखती हैं। इस क़िताब में ज़ियादातर आज़ाद नज़्में हैं, बिना रदीफ़-काफ़िया की बंदिशों के, जिस से ख़यालों को और ज़ियादा उड़ान मिलती है।
यह किताब किसी ऐसे शायर की नहीं है जो सिर्फ़ काग़ज़ों पर शायरी करता है, बल्कि उस शायर की है जिसने ज़िंदगी के हर पन्ने को शिद्दत से जिया, महसूस किया, और फिर उन्हें लफ़्ज़ों में ढाला है। उनकी लिखावट का हर लफ़्ज़ दिल की तहों में उतरता चला जाता है। उनकी इस नज़्म को देखिए, इसमें बेबसी को कितनी ख़ूबसूरती से बयान किया गया है...
...हँसी आती है ज़ख्मों पर,
मैं रोता हूँ लतीफों पर
बज़ाहिर हूँ बहुत ही ख़ुश,
बहुत ज़ख्मी हूँ पर अंदर
मेरा अब जी नहीं लगता...
सिराज फ़ैसल ख़ान के इस नज़्म-संग्रह की आवाज़ किसी मंच से नहीं बल्कि आम ज़िन्दगी की गलियों से उठती है, जहाँ भूख है, थकन है, और टूटी उम्मीदें हैं। ये वो आवाज़ है जो शोर में नहीं ख़ामोशी में सुनाई देती है। एक नज़्म में वो लिखते हैं...
...यहाँ मुंडेरों पे गिद्ध बैठे हैं वासना के
नज़र गड़ा के
यहाँ पे इस्मत नहीं सलामत है अब किसी की
न बच्चियों की, न बूढ़ियों की
ये भेड़ियों का मुआशरा है...
सिराज फ़ैसल ख़ान की नज़्मों में लगभग हर मौज़ू को ख़ूबसूरती और सलीके से जगह दी गई है, चाहे वो मुहब्बत हो, बेवफ़ाई हो या कोई और पहलू। उनकी इस नज़्म को देखिए, इसमें दिल के एहसासों को किस ख़ूबसूरती से लफ़्ज़ों में पिरो कर वफ़ा, ज़फ़ा, गिले-शिकवे और उदासी में लिपटी हुई मुहब्बत की एक हसीन तस्वीर पेश की गई है...
तेरे दुख में तेरा हौसला कौन था
मैं नहीं था अगर तो बता कौन था
किस की चाहत पे ईमान लाईं थीं तुम
इश्क़ में वो तुम्हारा ख़ुदा कौन था
कौन था जिस के लफ़्ज़ों को चूमा गया
जिस के जज़्बों को रौंदा गया कौन था...
उन की नज़्में हमें सवाल देती हैं, जवाब नहीं। वक़्त, एहसास, और ज़मीर जैसे मौज़ू' उनके यहाँ किरदार बन जाते हैं। वे शोर नहीं मचाते, बल्कि ख़ामोशी से आपको झिंझोड़ देते हैं। उन की नज़्में वही ईंटें हैं, जो ज़मीर की दीवारों को थोड़ा और ऊँचा कर देती हैं। वो कहते हैं...
...मैं ज़ालिमों के
ख़िलाफ़ मिट्टी का जिस्म लेकर खड़ा रहूँगा
ज़मीर जिनको भी बेचना है
वो बेच दें
मैं नहीं बिकुँगा
अड़ा रहूंगा...
सिराज फ़ैसल ख़ान की नज़्मों में एक साफ़ सामाजी सलीक़ा है, जो नारेबाज़ी नहीं करता, बल्कि तर्क, एहसास, और बातचीत के ज़रिये पाठक को झकझोरता है। ये केवल लफ्जों का नहीं, हमारे एहसासों का मजमुआ है जो क़िताब की शक्ल में है। इस में कोई बनावटी रोमांस नहीं, कोई ज़बरदस्ती की उदासी नहीं। बल्कि इसमें वो ख़ामोशियाँ हैं जो चीख़ती हैं, वो हँसी भी है जो मजबूरी में आती है, और वो प्रेम है जो ख़याल बन चुका है। वो कहते हैं...
...ये कुछ दिनों से उजाड़ दुनिया
खिली खिली सी जो लग रही है
हर इक ख़ुशी में घुला है ग़म सा
हर एक ग़म में ख़ुशी घुली है
ये कैसा दरिया है जितना डूबा हूँ
प्यास उतनी ही बढ़ रही है
ये बर्फ़ कैसी है जो लहू में
रगों के अंदर पिघल रही है...
सिराज फ़ैसल ख़ान की ज़बान बहुत सीधी, सादी और असरदार है। वो न उलझे हुए इस्तियारों (प्रतीकों) का सहारा लेते हैं, न दुश्वार-ओ-वज़नी फ़लसफ़े का। उनकी नज़्में ज़मीन से जुड़ी हैं, और दिल में सीधे उतरती हैं, जैसे ये नज़्म देखिए...
...तअल्लुक़ तर्क करना है
तअल्लुक़ तर्क कर लेना
मगर इक मशवरा सुन लो
इसे तुम इल्तिज़ा समझो
तुम्हें बस इतना करना है
कि इस अंजाम से पहले
मेरा आगाज़ दोहरा दो
मुझे फिर मुझ से मिलवा दो...
इस क़िताब की टाइटल नज़्म ‘परफ्यूम’ उस ख़ुशबू की तरह है जो एक बार ज़हन में बैठ जाती है तो देर तक रहती है। इसमें इश्क़ की एक बहुत ही नर्म, मगर असरदार तस्वीर उभरती है। इस तरह की नज़्में दिल के दरवाज़े पर दस्तक नहीं देतीं बल्कि दिल पर कब्ज़ा कर लेती हैं।
तेरे परफ़्यूम की ख़ुशबू
मेरी जानाँ
हमारे वस्ल पर पहले
गले लगने से
मेरे फ़ेवरेट स्वेटर पे मेरे साथ आई थी
ये तेरे प्यार की
तन पर मेरे
पहली निशानी थी
जिसे अब तक हिफाज़त से
मेरी सारी
मुहब्बत से
सजा के मैं ने रक्खा है
ये ख़ुशबू छूट ना जाए
इसी डर से
दोबारा
मैं ने उस स्वेटर को
पहना है
न धोया है...
इस क़िताब की एक नज़्म "बेरोज़गार" को देखिए। ये नज़्म सिर्फ़ एक शख़्स की नहीं, बल्कि एक पूरी नस्ल की नुमाइंदगी करती है, उस नस्ल की जो रोज़ नाक़ामियों से टकराती है, और फिर भी हार नहीं मानती...
...कहीं पे
मज़हब जवाज़ था तो
कहीं पे
रिश्वत ने हाथ काटे
कहीं पे
पर्चा बहुत कठिन था
कहीं पे
बीमार पड़ गया मैं...
मैं अपनी
जानिब से पूरी कोशिश
तो कर रहा हूँ
मगर नतीजे
ख़िलाफ़ आएँ तो क्या करूँ मैं...
इस क़िताब की कई नज़्मों के टाइटल अंग्रेज़ी में हैं जैसे नास्टेल्जिया, परफ़्यूम, कैफे, मोबाइल, ज़ाम्बी, ब्रेकअप, फ्लैशबैक, Melancholy वगैरह। इन्हें देख कर ऐसा वहम हो सकता है कि शायद शायर पर मग़रिबी तहज़ीब का ज़ियादा असर है, मगर यह किसी मग़रिबी असर का नतीजा नहीं, बल्कि एक जदीद नज़रिया है। जैसे Melancholy नज़्म के इस हिस्से को देखिए...
...देखना वो अब के भी
जल्द लौट आएगी
फिर मुझे मनाएगी
फेवरेट इमोजी से
कार्टून से, जिफ़ से
बात फिर बनाएगी...
सिराज फ़ैसल ख़ान की कई नज़्मों में नारेबाज़ी की जगह ख़ामोशी और तर्क के ज़रिये सामाजी नाहमवारियों (विसंगतियों) पर भी गहरी चोट मिलती है। जैसे इस नज़्म को देखिए...
...ये फ़िरक़ा-वारियत का ज़हर, ये नफ़रत की तक़रीरें
नहीं होती है ऐसे क़ौम की तामीर मौलाना
मिसाइल मोड़ देना आप फ़तवों की मेरी जानिब
लगे गर आप को कड़वी मेरी तहरीर मौलाना...
जो नज़्म जितनी छोटी होती है, वो मआनी के लिहाज़ से उतनी ही वज़्नदार और असरदार होती है। नज़्म "आख़िरी मैसेज" इसकी बेहतरीन मिसाल है...
आख़िरी लिफ़ाफे में
उसने ख़त नहीं रक्खा
फिर भी उस में मैसेज था
जिस को बस मैं समझा था
उस ने मुझ से बोला था
उस की ज़िंदगी मुझ बिन
इस हसीं लिफ़ाफे सी
देखने में अच्छी है
असलियत में ख़ाली है...
ये एक बेहतरीन नज़्म-संग्रह है। ये मजमूआ नौजवान पढ़ने वालों को ज़ेहनी तौर पर आगाह करता है, और तजुर्बेकार पढ़ने वालों को अदबी इतमीनान देता है। इसमें फ़न है, एहसास है, और सबसे बढ़कर एक साफ़ और सच्ची आवाज़ मौजूद है।
ऐ ग़म-ए-दुनिया तुझे क्या इल्म तेरे वास्ते
किन बहानों से तबीअ’त राह पर लाई गई
साहिर लुधियानवी को इस दुनिया से गए 45 साल गुज़र गए हैं, मगर आप जब भी उनकी शायरी और फ़िल्मी नग़्मों की तरफ़ जाएँगे तो आपको यक़ीनन ऐसा महसूस होगा कि वो अब भी मौजूद हैं। वो अपनी शायरी और फ़िल्मी नग़्मों में ही कहीं साँसें ले रहे हैं। वो आज भी शायरी और फ़िल्मी नग़्मों में दिलचस्पी रखने वाले लोगों के लिए मिसाल बने हुए हैं। उनकी शायरी और फ़िल्मी नग़्मों की अब भी बहुत लम्बी उम्र बाक़ी है। अपनी शायरी के लिए साहिर कॉलेज के दिनों से ही काफ़ी मशहूर रहे और फिर बम्बई आकर उन्होंने जो किया उसे उनका हर चाहने वाला बहुत अच्छी तरह जानता है।
"कभी कभी मेरे दिल में ख़याल आता हैं", "मेरे दिल में आज क्या हैं तू कहें तो मैं बता दूँ", "जो वादा किया वो निभाना पड़ेगा", "तुम अगर साथ देने का वादा करो", "ए मेरी ज़ोहराजबीं तुझे मालूम नहीं", “नीले गगन के तले, धरती का प्यार पले", "अभी ना जाओ छोड़कर, के दिल अभी भरा नहीं" ऐसे सैकड़ों मधुर प्रेमगीतों के रचनाकार साहिर लुधियानवी का जन्म संयोग से अंतरराष्ट्रीय महिला दिवस के दिन यानी 8 मार्च को हुआ था। सन 1921 को लुधियाना (पंजाब) के एक जागीरदार घराने में जन्मे साहिर का असली नाम अब्दुल हयी था। पिता फ़ज़ल मोहम्मद की ग्यारहवीं बीवी सरदार बेग़म उनकी मां थीं। साहिर उनके पहले और इकलौते बेटे थे। इसी कारण उनकी परवरिश बड़े प्यार से हुई।
लेकिन अभी वह बच्चे ही थे कि सुख के सारे दरवाज़े उसके लिए एकाएक बंद हो गए। फ़ज़ल मोहम्मद को अपनी बेशुमार दौलत पर ग़ुरुर था, उसी की वजह से उनकी अय्याशियाँ भी बढ़ने लगीं और उन्होंने बारहवीं शादी करने का फ़ैसला किया। अपने पति की इन अय्याशियों से तंग आकर साहिर की माँ ने पति से अलग होने का फ़ैसला किया। चूँकि लाहौर की अदालत में 13 साल के साहिर ने पिता के मुक़ाबले माँ को अहमियत दी थी। इसलिए उनकी परवरिश की ज़िम्मेदारी उनकी माँ को सौंपी गयी। नतीजे में साहिर का अपने पिता और उनकी जागीर से कोई संबंध नहीं रहा। इसी के साथ साहिर और उनकी माँ, दोनों का कठिनाइयों और निराशाओं का दौर शुरू हो गया।
मुक़दमा हार जाने पर पिता ने यह धमकी दी थी कि वह साहिर को मरवा डालेंगे। तब माँ ने अपने सारे क़ीमती जेवर बेचकर साहिर की हिफ़ाज़त का बंदोबस्त किया। सुरक्षा गार्ड एक पल भी साहिर को अकेला नहीं छोड़ते थे। इस तरह पिता के प्रति घृणा भाव के साथ साहिर के मन में एक विचित्र सा भय भी पल रहा था। बचपन से ही साहिर ने अपनी माँ को, अपने लिए तमाम तरह के दुख-दर्द सहकर और मुश्किल हालात में जूझते हुए देखा था। साहिर को पाल-पोसकर बड़ा करने के लिए मां को बड़ा कठिन संघर्ष करना पड़ा। यही संघर्ष फ़िल्म ‘त्रिशूल’ के लिये लिखे, साहिर के एक गीत में उभर कर आया है। जिसमें अकेली मां की भूमिका निभाने वाली वहीदा रहमान अपने बेटे की परवरिश के लिए कई कठिनाइयों से लड़ती है ...
"तू मेरे साथ रहेगा मुन्ने, ताकि तू जान सके
तुझको परवान चढ़ाने के लिए
कितने संगीन मराहिल से तेरी मा गुज़री
कितने पाँव मेरे ममता के कलेजे पे पड़े
कितने ख़ंजर मेरी आँखों, मेरे कानों में गड़े"
साहिर ने जब बाक़ायदा शायरी शुरू की और फ़िल्मों के लिए गीत लिखना शुरू किये तो ग़रीबी-मुफ़लिसी, तंगहाली, सांप्रदायिकता, शोषण के ख़िलाफ़ उनकी नज़्में आकार लेने लगीं।
"ज़िंदगी भीक में नहीं मिलती ज़िंदगी बढ़ के छीनी जाती है
अपना हक़ संग-दिल ज़माने से छीन पाओ तो कोई बात बने।
पोंछ कर अश्क अपनी आँखों से मुस्कुराओ तो कोई बात बने
सर झुकाने से कुछ नहीं होता सर उठाओ तो कोई बात बने ..."
लुधियाना के ख़ालसा हाई स्कूल में अपनी प्रारंभिक शिक्षा पूरी करने के बाद साहिर गवर्नमेंट कॉलेज ऑफ़ लुधियाना में दाख़िल हुये। वहाँ की सियासी सरगर्मियों का उन पर असर होने लगा। और उस दौर के मशहूर शायर - इक़बाल, फ़ैज़, मजाज़, फ़िराक़ वगैरा की विद्रोही शायरी से भी वह रूबरू होने लगे। सन 1945 में केवल 24 साल की उम्र में 'तल्ख़ियाँ' नाम से उनका पहला काव्य संग्रह प्रकाशित हुआ। जिसकी वजह से उन्हें बतौर शायर बड़ी क़ामयाबी हासिल हुई। साहिर ने बचपन से ही जीवन की कठोर वास्तविकता का अनुभव किया था। जिसकी वजह से उन्होंने अपनी पहली किताब का नाम भी 'तल्ख़ियाँ' मतलब 'कड़वाहटें' रखा था।
साहिर ने कॉलेज की पढ़ाई पूरी करने के बाद प्रसिद्ध उर्दू पत्र ‘अदब-ए-लतीफ़’, ‘शाहकार’ (लाहौर) और द्वैमासिक पत्रिका ‘सवेरा’ के संपादक की ज़िम्मेदारियाँ निभाई। 'सवेरा' पत्रिका में उनकी एक रचना छपी थी जिसे सरकार के विरुद्ध समझा गया और पाकिस्तान सरकार ने उनके ख़िलाफ़ वारंट भी जारी कर दिया था। सन 1949 में साहिर अपनी माँ के साथ पाकिस्तान छोड़कर हिंदुस्तान आ गये। उसके बाद अपना नसीब आज़माने के लिए बंबई शहर पहुँचे। फ़िल्म 'आज़ादी की राह पर' (1949) से उन्होंने गीतकार के रूप में अपनी पहचान बनाई। प्यार में नारी के समर्पण की भावना को साहिर से ज़्यादा शायद ही किसी गीतकार ने इतने खुबसूरत शब्दों में बयाँ किया होगा ...
"आज सजन मोहे अंग लगा लो, जनम सफल हो जाये
हृदय की पीड़ा देह की अगनी, सब शीतल हो जाये ..."
साहिर ने अपने निजी जीवन में कई दफ़ा मोहब्बत की और वो ज़िंदगी में मोहब्बत की अहमियत से भी अच्छी तरह से वाक़िफ़ थे। उनका कहना था कि मोहब्बत भी तक़दीरवालों के हिस्से में आती है। शायद इसलिए उन्होंने लिखा था।
"मिलती है ज़िंदगी में मोहब्बत कभी-कभी
होती है दिलबरों की इनायत कभी-कभी ..."
लेखिका और शायरा अमृता प्रीतम और गायिका सुधा मल्होत्रा के साथ साहिर के नाम जोड़े जाते रहे हैं। अमृता प्रीतम ने तो साहिर से अपने प्यार को दुनिया के सामने कई बार ज़ाहिर भी किया था। साहिर के लिए उनकी मोहब्बत दिवानगी की हद तक थी। इस मोहब्बत को साहिर ने भी अपनी रचनाओं में ढ़ालते हुए कहा है ...
"तुम मुझे भूल भी जाओ, तो ये हक़ है तुमको
मेरी बात और है, मैंने तो मुहब्बत की है ..."
पर अफ़सोस, साहिर को प्यार में कभी सफलता नहीं मिल सकी। शायद साहिर, अमृता से अपने दिल की बात कह नहीं पाते थे। उनके दिल में भले ही मोहब्बत ख़ामोशी से पलती रहती होगी लेकिन वह उसे अंजाम तक कभी ला नहीं पाये। इन्हीं उलझन भरे सवालों पर वह रूककर, आख़िर यह कह उठते हैं ...
"वो अफ़साना जिसे अंजाम तक लाना न हो मुमकिन
उसे इक खूबसूरत मोड़ देकर छोड़ना अच्छा ..."
साहिर के गीतों में नारी की दुर्दशा और सामंती प्रवृत्तियों के प्रति रोष और उनका विरोध उनकी तीखी अभिव्यक्तियाँ हैं। सन 1955 में बनी फ़िल्म 'देवदास' का एक गीत आज भी पुरुष प्रधान समाज के अत्याचारों की सटीक कहानी बयाँ करने के लिए काफ़ी है, जिसमें नारी ख़ुद अपनी दर्दभरी दास्ताँ सुनाते हुए बोल उठती है ...
"मैं वो फूल हूँ कि जिसको गया हर कोई मसल के
मेरी उम्र बह गई है मेरे आँसुओं में ढ़ल के ...
जो बहार बन के बरसे वह घटा कहाँ से लाऊँ
जिसे तू क़ुबूल कर ले वह अदा कहाँ से लाऊँ ...
तेरे दिल को जो लुभाए वह सदा कहाँ से लाऊँ ..."
साहिर को किसी इन्सान से शिकायत नहीं थी। उन्हें शिकायत थी तो समाज के उस ढ़ाँचे से जो इंसान से उसकी इंसानियत छीन लेता है। उसे शिकायत थी उस तहज़ीब से, उस संस्कृति से जहाँ मुर्दों को पूजा जाता हैं और ज़िंदा इन्सान को पैरों तले रौंदा जाता है। जहाँ किसी के दुःख-दर्द पर दो आँसू बहाना बुज़दिली समझा जाता है। देवियों की पूजा की जाती है और औरतों को इंसान नहीं बल्कि जी बहलाने का खिलौना समझा जाता है। फ़िल्म ‘इंसाफ़ का तराज़ू’ के गीत में साहिर ने यही बात स्पष्ट की है ...
"लोग औरत को फ़क़त एक जिस्म समझ लेते हैं
रूह भी होती है उस में ये कहाँ सोचते हैं ...
कितनी सदियों से ये वहशत का चलन जारी है
कितनी सदियों से है क़ायम, ये गुनाहों का रिवाज़ ..."
हमारे इस घोर ढ़ोंगी और पाखंडी समाज के चेहरे पर से ये झूठी शराफ़त का नक़ाब उठाने की हिम्मत साहिर ने अपने गीतों में की है। साहिर ने महिलाओं के शोषण के लिए, उन पर होनेवाले अत्याचार के लिए पितृसत्ता और सामंतवादी व्यवस्था को दोषी ठहराया है। फ़िल्म साधना में उन्होंने इसका स्पष्ट विवरण दिया है, जहां वह महिलाओं को उपभोग की वस्तु बनाने वाली बर्बर व्यवस्था पर ऊँगली उठाते हैं।
"औरत ने जनम दिया मर्दों को,
मर्दों ने उसे बाज़ार दिया ...
जब जी चाहा कुचला मसला,
जब जी चाहा दुत्कार दिया ...
मर्दों के लिये हर ज़ुल्म रवाँ,
औरत के लिये रोना भी ख़ता ...
मर्दों के लिये लाखों सेजें,
औरत के लिये बस एक चिता ...
मर्दों के लिये हर ऐश का हक़,
औरत के लिये जीना भी सज़ा ...
मर्दों ने बनायी जो रस्में,
उनको हक़ का फ़रमान कहा ...
औरत के ज़िन्दा जल जाने को,
क़ुर्बानी और बलिदान कहा ...
क़िस्मत के बदले रोटी दी,
उसको भी एहसान कहा ...
औरत ने जनम दिया मर्दों को, मर्दों ने उसे बाज़ार दिया ..."
नारी जीवन की पीड़ायें असहनीय हैं, यह साहिर भलीभांति जानते थे। समाज के इस क्रुर और अमानवनीय ढ़ाँचे में नारी का दम निरंतर घुटता रहता है। समाज के इस बेरहम और ज़ालिम ढ़ांचे से परेशान होकर साहिर इस हद तक झुँझलाकर कह उठते हैं ...
"जवानी भटकती है बद-कार बन कर,
जवाँ जिस्म सजते हैं बाज़ार बन कर ...
यहाँ प्यार होता है बेपार बन कर,
ये दुनिया अगर मिल भी जाए तो क्या है ..."
साहिर ने पाया कि समाज में देह व्यापार का धंधा अपने पांव पसारे हुए है। जहां लाखों महिलाएँ दुनिया से कटकर बेबस ज़िंदगी जी रही हैं। वेश्या बनी नारी की उफ़नती पीड़ा, अँधेरे कोनों में व्याप्त वेदना, अपमानित जीवन का आतंक, आतंरिक विवशता, दीनहीन होने की वेदना को साहिर ने अपनी रचनाओँ में अभिव्यक्ति दी है। फ़िल्म ‘प्यासा’ में उनकी क़लम ऐसे ही ग़ैर इंसानी रिवाजों के ख़िलाफ़ तेज़ आग बरसाती है। उसमें समाज और उसके ठेकेदारों पर साहिर सवाल उठाते हैं ... के 'आत्मसम्मान की बात करने वाले वह लोग अब कहाँ हैं?? क्या इन्हें अब तंग गलियों और अँधेरे कमरो में चलने वाले देह व्यापार नहीं दिखते?? सहमी हुयी नाबालिग़ लड़कियों को जब इस गहरी खाई में ढ़केला जाता है तब यह मानवता के रक्षक कहाँ होते हैं?? क्यों इस बर्बर प्रथा के ख़िलाफ़ इनकी आवाज़ नहीं उठती ...??
"ये कूचे, ये नीलाम घर दिलकशी के, ये लुटते हुए कारवां ज़िंदगी के ...
कहाँ हैं, कहाँ हैं मुहाफ़िज़ ख़ुदी के, जिन्हें नाज़ है हिन्द पर वो कहाँ हैं ...
ये सदियों से बेखौफ़ सहमी सी गलियाँ, ये मसली हुई अधखिली ज़र्द कलियाँ ...
ये बिकती हुई खोखली रंगरलियाँ, जिन्हें नाज़ है हिन्द पर वो कहाँ हैं ...
ज़रा इस मुल्क के रहबरों को बुलाओ, ये कूचे ये गलियाँ ये मंज़र दिखाओ ...
जिन्हें नाज़ है हिन्द पर उनको लाओ, जिन्हें नाज़ है हिन्द पर वो कहाँ हैं ..."
अपने गीतों के माध्यम से साहिर ने नारी जगत की दिशा और दशा को उजागर किया है। ज़िंदगी के यथार्थ का दर्शन साहिर के नग़्मों की जान है। लेकिन साहिर यथार्थ के साथ-साथ ज्वलन्त आशावाद, उत्साह और दृढ़ विश्वास के शायर भी हैं। उन्होंने औरतों की बेहतरी, ख़ुशहाली व सुखद भविष्य वाले समाज की भी कल्पना की है। उन्हें यह यक़ीन था कि दुःख के ये काले बादल यक़ीनन दूर हो जायेंगे और न्याय, स्वतंत्रता और समानता की सुबह भी ज़रूर आयेगी ...
"दौलत के लिए जब औरत की,
इस्मत को ना बेचा जाएगा ...
चाहत को ना कुचला जाएगा,
इज़्ज़त को न बेचा जाएगा ...
अपने काले करतूतों पर जब,
ये दुनिया शर्माएगी ...
वो सुबह कभी तो आएगी,
वो सुबह कभी तो आएगी ..."
भारतीय साहित्यिक दुनिया में औरत पर सदियों से होते आ रहे ज़ुल्मों के ख़िलाफ़, इतनी शिद्दत से आवाज़ उठाने वाले शायद वह अकेले ही शायर रहे।
"सीता के लिये लिखा है यही,
हर युग में अग्नि परीक्षा दे ...
दु:ख सह के भी मुख से कुछ ना कहे,
मन को धीरज की शिक्षा दे ..."
साहिर कहते हैं कि स्त्रियाँ अपना पूरा जीवन अन्याय सहते हुए व्यतीत कर देती हैं, कभी विरोध नहीं करती लेकिन जिस दिन उसके ह्रदय में विद्रोह की चिंगारियां जागृत हो जाऐंगी। तो सम्पूर्ण शोषक समाज को उसके ताप में झुलसना पडेगा। साहिर लुधियानवी के नारी चेतना से ओत-प्रोत गीत आधी आबादी को जीवन जीने की प्रेरणा देते हैं। वर्तमान समाज में फैली अनेक कुरीतियों को भी धराशायी करते प्रतीत होते हैं। ऐसे "शब्दों के जादूगर" अपनी कर्म साधना से सदियों तक प्रासंगिक बने रहेंगे। आज उनकी पुण्यतिथि पर उन्हें ख़िराज ए अक़ीदत ...
छठ सूर्य की उपासना का पर्व है. यह प्रात:काल में सूर्य की प्रथम किरण और सायंकाल में सूर्य की अंतिम किरण को अर्घ्य देकर पूर्ण किया जाता है. सूर्य उपासना का पावन पर्व छठ कार्तिक शुक्ल की षष्ठी को मनाया जाने जाता है. इसलिए इसे छठ कहा जाता है. हिन्दू धर्म में सूर्य उपासना का बहुत महत्व है. छठ पूजा के दौरान क केवल सूर्य देव की उपासना की जाती है, अपितु सूर्य देव की पत्नी उषा और प्रत्यूषा की भी आराधना की जाती है अर्थात प्रात:काल में सूर्य की प्रथम किरण ऊषा तथा सायंकाल में सूर्य की अंतिम किरण प्रत्यूषा को अर्घ्य देकर उनकी उपासना की जाती है. पहले यह पर्व पूर्वी भारत के बिहार, झारखंड, पूर्वी उत्तर प्रदेश और नेपाल के तराई क्षेत्रों में मनाया जाता था, लेकिन अब इसे देशभर में मनाया जाता है. पूर्वी भारत के लोग जहां भी रहते हैं, वहीं इसे पूरी आस्था से मनाते हैं.
छठ पूजा चार दिवसीय पर्व है. इसका प्रारंभ कार्तिक शुक्ल चतुर्थी को तथा कार्तिक शुक्ल सप्तमी को यह समाप्त होता है. इस दौरान व्रतधारी लगातार 36 घंटे का कठोर व्रत रखते हैं. इस दौरान वे पानी भी ग्रहण नहीं करते. पहला दिन कार्तिक शुक्ल चतुर्थी नहाय-खाय के रूप में मनाया जाता है. सबसे पहले घर की साफ-सफाई की जाती है. इसके पश्चात छठव्रती स्नान कर पवित्र विधि से बना शुद्ध शाकाहारी भोजन ग्रहण कर व्रत आरंभ करते हैं. घर के सभी सदस्य व्रती के भोजन करने के उपरांत ही भोजन ग्रहण करते हैं. भोजन के रूप में कद्दू-चने की दाल और चावल ग्रहण किया जाता है. दूसरा दिन कार्तिक शुक्ल पंचमी खरना कहा जाता है. व्रतधारी दिन भर का उपवास रखने के पश्चात संध्या को भोजन करते हैं. खरना का प्रसाद लेने के लिए आस-पास के सभी लोगों को बुलाया जाता है. प्रसाद के रूप में गन्ने के रस में बने हुए चावल की खीर, दूध, चावल का पिट्ठा और घी चुपड़ी रोटी बनाई जाती है. इसमें नमक या चीनी का उपयोग नहीं किया जाता है. तीसरे दिन कार्तिक शुक्ल षष्ठी को दिन में छठ प्रसाद बनाया जाता है. प्रसाद के रूप में ठेकुआ और चावल के लड्डू बनाए जाते हैं. चढ़ावे के रूप में लाया गया सांचा और फल भी छठ प्रसाद के रूप में सम्मिलित होते हैं. संध्या के समय बांस की टोकरी में अर्घ्य का सूप सजाया जाता है और व्रती के साथ परिवार तथा पड़ोस के सारे लोग अस्ताचलगामी सूर्य को अर्घ्य देने घाट की ओर चल पड़ते हैं. सभी छठ व्रती नदी या तालाब के किनारे एकत्रित होकर सामूहिक रूप से अर्घ्य दान संपन्न करते हैं. सूर्य देव को जल और दूध का अर्घ्य दिया जाता है तथा छठी मैया की प्रसाद भरे सूप से पूजा की जाती है. चौथे दिन कार्तिक शुक्ल सप्तमी की सुबह उदियमान सूर्य को अर्घ्य दिया जाता है. व्रती वहीं पुनः इक्ट्ठा होते हैं, जहां उन्होंने संध्या के समय सूर्य को अर्घ्य दिया था और सूर्य को अर्घ्य देते हैं. इसके पश्चात व्रती कच्चे दूध का शीतल पेय पीकर तथा प्रसाद खाकर व्रत पूर्ण करते हैं. इस पूजा में पवित्रता का ध्यान रखा जाता है; लहसून, प्याज वर्जित है. जिन घरों में यह पूजा होती है, वहां छठ के गीत गाए जाते हैं.
छठ का व्रत बहुत कठोर होता है. चार दिवसीय इस व्रत में व्रती को लगातार उपवास करना होता है. इस दौरान व्रती को भोजन तो छोड़ना ही पड़ता है. इसके अतिरिक्त उसे भूमि पर सोना पड़ता है. इस पर्व में सम्मिलित लोग नये वस्त्र धारण करते हैं, परंतु व्रती बिना सिलाई वाले वस्त्र पहनते हैं. महिलाएं साड़ी और पुरुष धोती पहनकर छठ पूजा करते हैं. इसकी एक विशेषता यह भी है कि प्रारंभ करने के बाद छठ पर्व को उस समय तक करना होता है, जब तक कि अगली पीढ़ी की किसी विवाहित महिला इसे आरंभ नहीं करती. उल्लेखनीय है कि परिवार में किसी की मृत्यु हो जाने पर यह पर्व नहीं मनाया जाता है.
छठ पर्व कैसे आरंभ हुआ, इसके पीछे अनेक कथाएं हैं. एक मान्यता के अनुसार लंका विजय के बाद रामराज्य की स्थापना के दिन कार्तिक शुक्ल षष्ठी को भगवान राम और सीता मैया ने उपवास रखकर सूर्यदेव की पूजा की थी. सप्तमी को सूर्योदय के समय पुनः अनुष्ठान कर सूर्यदेव से आशीर्वाद प्राप्त किया था. एक अन्य कथा के अनुसार राजा प्रियवद को कोई संतान नहीं थी, तब महर्षि कश्यप ने पुत्रेष्टि यज्ञ कराकर उनकी पत्नी मालिनी को यज्ञाहुति के लिए बनाई गई खीर दी थी. इसके प्रभाव से उन्हें पुत्र हुआ, परंतु वह मृत पैदा हुआ. प्रियवद पुत्र को लेकर श्मशान गए और पुत्र वियोग में प्राण त्यागने लगे. तभी भगवान की मानस कन्या देवसेना प्रकट हुई. उसने कहा कि सृष्टि की मूल प्रवृत्ति के छठे अंश से उत्पन्न होने के कारण वह षष्ठी है. उसने राजा से कहा कि वह उसकी उपासना करे, जिससे उसकी मनोकामना पूर्ण होगी. राजा ने पुत्र इच्छा से देवी षष्ठी का व्रत किया और उन्हें पुत्र रत्न की प्राप्ति हुई. यह पूजा कार्तिक शुक्ल षष्ठी को हुई थी. एक अन्य मान्यता के अनुसार छठ पर्व का आरंभ महाभारत काल में हुआ था. सबसे पहले सूर्य पुत्र कर्ण ने सूर्य देव की पूजा शुरू की थी. वह प्रतिदिन घंटों कमर तक पानी में ख़ड़े होकर सूर्य को अर्घ्य देता था. आज भी छठ में सूर्य को अर्घ्य दिया जाता है. कुछ कथाओं में पांडवों की पत्नी द्रौपदी द्वारा सूर्य की पूजा करने का उल्लेख है.
पौराणिक काल में सूर्य को आरोग्य देवता भी माना जाता था. भारत में वैदिक काल से ही सूर्य की उपासना की जाती रही है. देवता के रूप में सूर्य की वंदना का उल्लेख पहली बार ऋगवेद में मिलता है. विष्णु पुराण, भगवत पुराण, ब्रह्मा वैवर्त पुराण आदि में इसकी विस्तार से चर्चा की गई है. उत्तर वैदिक काल के अंतिम कालखंड में सूर्य के मानवीय रूप की कल्पना की जाने लगी. कालांतर में सूर्य की मूर्ति पूजा की जाने लगी. अनेक स्थानों पर सूर्य देव के मंदिर भी बनाए गए. कोणार्क का सूर्य मंदिर विश्व प्रसिद्ध है.
छठ महोत्सव के दौरान छठ के लोकगीत गाए जाते हैं, जिससे सारा वातावरण भक्तिमय हो जाता है.
’कईली बरतिया तोहार हे छठी मैया’ जैसे लोकगीतों पर मन झूम उठता है.
छठ मईया की महिमा,जाने सकल जहान।
“लाल पावे” जे पूजे, सदा करी कल्याण।।
सृष्टी की देवी प्रकृति नें खुद को 6 बागों में बांट रखा है। इनके छठे अंश को मातृदेवी के रुप में पूजा जाता है। ये ब्रम्हा की मानस पुत्री हैं। छठ व्रत यानी इनकी पूजा कार्तिक मास में आमवस्या के दीपावली के छठे दिन मनाया जाता है इसलिए इसका नाम छठ पर्व पड़ गया। छठ व्रत भगवान सूर्यदेव को समर्पित एक हिंदुओं का एक विशेष पर्व है। भगवान सूर्यदेव के शक्तियों के मुख्य स्त्रोत उनकी पत्नी उषा औऱ प्रत्यूषा है। यह पर्व उतर भारत के कई हिस्सों में खासकर यू.पी. झारखंड और बिहार में तो महापर्व के रुप में मानाया जाता है। शुद्धता, स्वच्छता और पवित्रता के साथ मनाया जाने वाला यह पर्व आदिकाल से मनाया जा रहा है। छठ व्रत में छठी माता की पूजा होती है और उनसे संतान व परिवार की रक्षा का वर मांगा जाता है। ऐसी मान्यता है कि जो भी सच्चे मन से छठ मैया का व्रत करता है। उसे संतान सुख के साथ-साथ मनोवांछित फल जरुर प्राप्त होता है। प्रायः हिदुओं द्वारा मनाये जाने वाले इस पर्व के इस्लाम औऱ अन्य धर्मावलम्बी भी मनाते देखे गये हैं।
यह पर्व हर वर्ष चैत एवं कार्तिक महिने में मनाया जाता है जिसे क्रमशः चैती छठ एवं कार्तिकी छठ कहते हैं। कार्तिक महीने के शुक्ल पक्ष में दीवाली के चौथे दिन से शुरु होकर सातवें दिन तक कुल 4 दिनों तक मानाया जाता है। इसमें पहले दिन यानी चतुर्थी को घऱबार साफ सुथरा करके स्नान करने के बाद खाना में चावल तथा चने दाल तथा लौकी का सादा सब्जी बनाया जाता है फिर खाया जाता है जिसे नहा खाये कहते है। अगले दिन संध्या में पंचमी के दिन खरना यानी के गुड़ में चावल का खीर बनाया जाता है। उपले और आम के लकड़ी से मिट्टी के चूल्हें पर फिर सादे रोटी और केला के साथ छठ माई को याद करते हुए अग्रासन निकालने के बाद धूप हुमाद के साथ पूजा के बाद पहले व्रती खाती है फिर घर के अन्य सदस्य खाते हैं। इसी के साथ मां का आगमन हो जाता है।
कार्तिक मास में षष्ठी तिथि को मनाए जाने वाले छठ
व्रत की शुरुआत रामायण काल से हुई थी। लोक मान्यताओं के अनुसार इस व्रत को त्रेतायुग में माता सीता ने तथा द्वापर युग में पांडु की पत्नी कुन्ती ने की थी जिससे कर्ण के रुप में पुत्र रत्न की प्राप्ति हुई थी। पांडव का वैभव एवं राजपाट छिन जाने पर भगवान कृष्ण के सलाह पर पांडव की पत्नी द्रौपदी ने भी इस व्रत को किया था जिससे पांडवो का खोया हुआ वैभव एवं राजपाट पुनः मिल गया था।हिन्दू शास्त्रों के अनुसार भगवान सूर्य एक मात्र प्रत्यक्ष देवता हैं। वास्तव में इनकी रोशनी से ही प्रकृति में जीवन चक्र चलता है। इनकी किरणों से धरती में फल, फूल, अनाज उत्पन्न होता है। छठ व्रत भी इन्हीं भगवान सूर्य को समर्पित है। इस महापर्व में सूर्य नारायण के साथ देवी षष्टी की पूजा भी होती है। छठ पूजन कथानुसार छठ देवी भगवान सूर्यदेव की बहन हैं और उन्हीं को प्रसन्न करने के लिए भक्तगण भगवान सूर्य की आराधना तथा उनका धन्यवाद करते हुए मां गंगा-यमुना या किसी अन्य नदी या जल स्त्रोत के किनारे इस पूजा को मनाते हैं। इस ब्रत को करने से संतान की प्राप्ति होती है तथा पूजा करने वाले हर प्राणियों की मनोकामनायें पूर्ण होती है। यह पर्व कार्तिक मास की शुक्ल पक्ष की षष्ठी तिथि को मनाई जाती है। और यह भगवान सूर्य को समर्पित है। बिहार और पूर्वांचल के निवासी आज जहां भी हैं वे सूर्य भगवान को अर्ग देने की परंपरा को आज भी कायम रखे हुए हैं।यही कारण है कि आज यह पर्व बिहार,झारखंड और पूर्वांचल की सीमा से निकलकर देश विदेश में मनाया जाने लगा है। चार दिनों तक चलने वाला यह पर्व बड़ा ही कठिन है। इसमें शरीर और मन को पूरी तरह साधना पड़ता है।
पौराणिक मान्यताओं के अनुसार भगवान राम सूर्यवंशी थे और उनके कुल देवता सूर्यदेव थे। इसलिए भगवान राम जब लंका से रावण वध करके अयोध्या वापस लौटे तो अपने कुलदेवता का आशीर्वाद पाने के लिए उन्होंने देवी सीता के साथ षष्ठी तिथि का व्रत रखा और सरयू नदी में डूबते सूर्य को फल, मिष्टान एवं अन्य वस्तुओं से अर्घ्य प्रदान किया। सप्तमी तिथि को भगवान राम ने उगते सूर्य को अर्घ्य देकर सूर्य देव का आशीर्वाद प्राप्त किया। इसके बाद राजकाज संभालना शुरु किया। इसके बाद से आम जन भी सूर्य षष्ठी का पर्व मनाने लगे।
सूर्य वंदना का उल्लेख ऋगवेद में भी मिलता है। इसके अलावे विष्णु पुरान,भगवत पुरान ब्रम्ह वैवर्त पुरान सहित मार्कण्डेय पुराण में छठ पर्व के बारे में वर्णन किया गया है। दिवाली के ठीक छठे दिन बाद मनाए जानेवाले इस महाव्रत की सबसे कठिन और साधकों हेतु सबसे महत्त्वपूर्ण रात्रि कार्तिक शुक्ल षष्टी की होती है जिस कारण हिन्दुओं के इस परम पवित्र व्रत का नाम छठ पड़ा। चार दिनों तक मनाया जानेवाला सूर्योपासना का यह अनुपम महापर्व मुख्यसे बिहार, झारखंड, उत्तरप्रदेश सहित सम्पूर्ण भारतवर्ष के अलावे कई देशों में बहुत ही धूमधाम और हर्सोल्लास से मनाया जाता है।
इस साल 25 अक्टूबर से नहा खाये के साथ शुरु होकर 28 अक्टूबर 2025 तक पारना के साथ मनाया जायेगा।
(लेखक साहित्य टीवी नई दिल्ली के संपादक हैं)
 
.jpg)












.jpg)

.jpg)
 
 
 
 
 
 
 
 
.jpg) 
.jpg) 
 
 
.jpg) 
 
.jpg) 
 
 
 
 
 Posts
Posts
 
