پانی پت (ہریانہ) . کہاں تو مسلمان اپنے لےے پارلیمنٹ میں ریزرویشن کاخواب دیکھ رہے تھے اورکہاں خودکی سیاسی بے وزنی کوبڑھانے کے لےے ہونے والے اقدامات کو وہ بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔وزیر اعظم کا فرمان ہے کہ ہندوستانی جمہوریت بحال ہو گئی اوراس کا دل صحیح مقام پرہے۔ اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کوبھی جمہوریت کا اصلی چہرہ دیکھنے کا موقع مل گیا۔اس سے قبل ہم اس کا نظارہ ایران کے خلاف IAEAکی قرار داد کے موقع پر بھی دیکھ چکے ہیں اورامریکہ سے نیوکلیئرڈیل کے موقع پربھی۔سونیا گاندھی کہتی ہیں کہ ہم ماضی میں بھی خطرات مول لے چکے ہیں اورمستقبل میں بھی لیتے رہیں گے۔نہ جانے کانگریس کے ایجنڈے پرابھی اورکیا کچھ ہے۔انہوں نے خواتین بل کواپنے شوہر کے دیرینہ خواب کی تعبیر قرار دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ملک کو کب تک نہرو خاندان کی ذاتی جائداد سمجھا جاتا رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار ریاستی مسلم مجلس مشاورت کی مٹنگ مےں کےا گیا،جس کی صدارت مشاورت کے جنرل سکریٹری مولانا امجد مجیدی کررہے تھے۔اس موقع پر مولانا مرسلےن زبیری نے کہا کہ اس ملک میں زبانوں کی بنیاد پر صوبے توتشکےل پاسکتے ہیں،پسماندہ ذاتوں کوتعلیم ،اقتدار اورملازمتوں میں ریزرویشن حاصل ہو سکتا ہے۔جنس کی بنیاد پر خواتین کی نمائندگی کا سیاسی کارڈکھیلا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا۔مسلم خواتین کی نمائندگی کے لئے آپ جوں ہی منہ کھولیں گے حکومت اقلیتی امور کے وزیر سلمان خورشید کے واسطہ سے آپ کے سامنے”مسلم ویمن ایمپاورمنٹ “ کالالی پاپ پیش کر دے گی۔جس کے لئے گیارہویں پنچ سالہ منصوبہ میں50 کروڑ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔جس کے ذریعہ 2لاکھ اقلیتی خواتین کو”بااختیار بنانے کی تربیت“کاپروگرام پیش کیا جارہا ہے۔مگر خیال رہے کہ یہ رقم ان NGOsکو ہی فراہم کی جائے گی جن کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ سے کم نہ ہو۔یعنی وہ جو بیرون ملک سے آنے والے فنڈ پر پل رہی ہیں جن کا تعلق امریکی ،صہیونی مقتدرہ سے جا ملتا ہے اورجن کا مقصد”بااختیاری“کے نام پرخواتین کو بیہودگی ،بے حیائی ،سرکشی اوراسلام دشمن بنانے کی سازش ہے ۔مٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے مولانا امجد مجیدی نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے گزشتہ 2 سالوں مےں ملت اسلامےہ کے جذبات سے تین بار کھلواڑ کیا۔پہلی بار ایٹمی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹ دیکر، دوسری بار امریکہ کے ساتھ نیوکلائی معاہدہ کر کے اور اب تیسری بار خواتین ریزرویشن بل کے معاملہ میں۔ کانگریس یہ بات سننے کو ہی تیار نہیں کہ اس بل سے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو نقصان پہونچے گا۔در اصل کانگریس اعلی کمان اس خوش فہمی مےں مبتلا ہے کہ ان کا ہرفیصلہ صحیح ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی کانگریس کی مسلم مخالف فیصلوں کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل سے دوستی کی شروعات بھی کانگریس ہی نے کی تھی ۔ سکیولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کانگریس کا وطیرہ رہا ہے ۔خواتین ریزرویشن بل معاملہ میں بھی کانگریس نے ایک نہیں سنی اور بل کو راجےہ سبھا میں پاس کرادیا۔انھوں نے کہا کہ مسلمان خواتین ابھی ووٹ ڈالنے بھی کم نکلتی ہیں، بھلا مسلمان خواتین انتخاب کہاں سے لڑینگی؟ آزادی سے لیکر اب تک صرف پندرہ سولہ مسلم خواتین لوک سبھا پہونچی ہیں ،جب لوک سبھا کی 33فیصد نشستیں خواتین کے لئے مخصوص ہوجائینگی تو ان پر ہندوستان کا دولت مند اور اعلی تعلیم یافتہ با اثر برہمن ،بنیا اور راجپوت ہندو طبقہ قابض ہو جائے گا،مسلمان نہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا۔مولانا بلال مفتاحی نے کہا کہ نقار خانہ مےں طوطی کی آوازوالی مثال راجےہ سبھا مےں دےکھنے کو ملی،جہاں خواتےن رےزروےشن بل پاس کر دےا گےا اور بےچارے مسلم نمائندے منھ تکتے رہ گئے۔ نہ ان کی کسی نے سنی اور نہ ان کی حماےت کرنے والوں کی ۔یہی موقع تھاکہ مسلمانوں کے کٹر دشمن بھی گلے ملتے نظر آئے۔بھاجپا کی سشماسوراج دوڑ کر سونےا سے گلے ملی تو سےکولر ازم کی علمبردار ی کی سب سے بڑی دعوےدار بائیں بازو کی اہم لیڈر برندا کرات نے بڑھ کرسشماسوراج کو گلے لگاےا۔ اب اگلامرحلہ لوک سبھا کا ہے اور اس کے بعد کم از کم ملک کی 14ریاستوں کی اسمبلےوں سے اس بل کو پاس ہونا ہے۔ اس کے بعد ہی ےہ بل قانون بن پائے گا۔ جس طرح ےہ بل راجےہ سبھا مےں پاس ہو گےا ہے امےد کی جارہی ہے کہ اسی طرح اگلے مرحلوں سے گزرکر قانون کی شکل لے لےگا اور بہت جلد ملک کے پارلےمنٹ اور صوبائی اسمبلےوں مےں خواتےن کے لئے 33فےصد نشستےں مخضوص ہو جائےں گی۔ انھوں نے کہا کہ ملک مےں پہلے ہی سے 28فےصد نشستےں ST/SCکے لےے مخصوص ہےں اور دلچسپ بات ےہ ہے کہ روٹےشن ہونے کے با وجود SC/STسےٹوں کو اس طرح مخصوص کےا جاتا ہے کہ مسلم اکثرےتی علاقے ” محفوظ “ سےٹوں کی زد مےں آجاتے ہےں اور بےچارے مسلمان منھ دےکھتے رہ جاتے ہےں۔ مرکزی محکموں اور الےکشن کمےشن مےں سر گرم مسلمان مخالف لابی خواتےن کے لےے بھی اب اسی طرح سےٹےں مخصوص کرےں گی کہ مسلمان اکثرےت والی باقیماندہ نشستےں بھی جاتی رہےں ۔ ےقےنی طور پر اب وہ وقت آنے والا ہے جب ہندوستان کی پارلےمنٹ مےں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ جائے گی اور اب تک کی لوک سبھا کی 30..35 کی تعداد گھٹ کر 10..15ہو جائے گی۔ اس بل کی سب سے بڑی مار مسلمانوں پر پڑے گی۔انھوں نے کہا کہ اس بات کا احساس کانگرےس کے ان مسلم قائدےن کو ہو ےا نہ ہو جو پارٹی سے ہٹ کر زبان پر اےک لفظ لانے کی جسارت نہےں کرتے لےکن ملائم سنگھ ےادو اور لالو پرشاد ےادو کو ضرور رہا۔ انہوں نے اس بل کی بھر پور مخالفت کی اور امےد کی جا رہی ہے کہ آئندہ بھی کرےں گے۔انھوں نے کہا کہ دائےں بازو سے تو کوئی توقع نہےں کی جا سکتی لےکن بائےں بازو نے بھی اس بات کو لائق غور نہےں سمجھا کہ اس بل سے مسلمانوں کو کےا نقصان ہوگا۔ سچ تو ےہ ہے کہ باےاں بازو مسلمانوں کے تعلق سے مےٹھی چھری کا رول ادا کرتا آےا ہے۔ اس کا واضح نمونہ مغربی بنگال ہے جہاں گزشتہ تیس سال سے بائیں بازو کی حکومت ہے اور ملک کا صرف یہ صوبہ ایسا ہے جہاں مسلمان فاقہ کشی پر مجبور ہیں ۔این ڈی کے اہم حلیف جنتا دل (یو) اسٍ معاملہ میں بکھری نظر آئی، شرد یادو نے اس بل کی مخالفت کی لیکن نتیش کمار نے حمایت کی اور نتیش کے وفادار راجیہ سبھا اراکین نے بل کے حق میں ووٹ ڈالے ۔مولانا نے مزید کہا کہ اسی فہرست میں دلت مسلمانوں کے حقوق کا ڈنڈھورا پیٹنے والے علی انور بھی شامل ہیں، ان کی پول بھی کھل گئی ، برہمن واد اور اشراف کی مخالفت کرنے والے اس راجیہ سبھا کے رکن کی حقیقت یہ ہے کہ یہ برہمنوں اور اشراف کی کٹھ پتلی ہے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لےے استعمال ہورہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکمراں طبقہ اب امتِ مسلمہ کو کسی نئے مسئلہ مےں الجھادے گا تاکہ وہ اسی مےں لگا رہے۔آخر مےں اےک تجوےز پاس کرکے کہا گیا کہ مسلم مجلس مشاورت بل کو موجودہ شکل مےں پوری طرح مسترد کرتی ہے۔
देश सेवा
-
नागरिक सुरक्षा विभाग में बतौर पोस्ट वार्डन काम करने का सौभाग्य मिला... वो
भी क्या दिन थे...
जय हिन्द
बक़ौल कंवल डिबाइवी
रश्क-ए-फ़िरदौस है तेरा रंगीं चमन
त...