Showing posts with label اردو. Show all posts
Showing posts with label اردو. Show all posts


ज़ाते-हक़ का है आईना मुरशिद।
मुर्तज़ा   मुस्तफ़ा  ख़ुदा  मुरशिद।
 ذاتِ حق کا ہے آئینہ مرشد۔
 مرتضیٰ مصطفیٰ خدا مرشد۔

दीनो-दुन्या की हर अता मुरशिद।
मज़हरे-हक़्क़ो  हक़नुमा मुरशिद।
دین و دنیا کی ہر عطا مرشد۔
مظہرِ حق و  حق نما  مرشد۔

मरकज़े-रुश्द   ओ   हिदायत   हैं,
रहबरो-हादी    रहनुमा   मुरशिद।
مرکزِ  رشد  و  ہدایت  ہئیں،
رہبر  و  ہادی  رہنما   مرشد۔

आप  को  पाया  साहिबे-मंज़िल,
ता ज दा रे-फ़ ना  बक़ा मुरशिद।
آپ  کو  پایا  صاحبِ منزل،
تاجدارِ    فنا    بقا    مرشد۔

जामो-मीना-है  और  मयकश है,
मयकदा मय है साक़िया मुरशिद।
جام و مینا ہےاورمئکش ہے،
میکدہ مئے ہے ساقیا مرشد۔

इस्म-आज़म  है  नाम,  चहरे  से,
दोनों आलम का मुद्दआ मुरशिद।
اسم اعظم ہےنام،چہرےسے،
دونوں عالم کا مدعا مرشد۔

बरहमन साक़िया इमाम हो तुम,
कितने पाकीज़ा पारसा मुरशिद।
برہمن  ساقیا  امام  ہو  تم،
کتنے  پاکیزہ  پارسا مرشد۔

हों फ़ना फ़िर्रुसुल फ़ना फ़िल्लाह,
काश! कर लें मुझे फ़ना मुरशिद।
ہوں فنا فی الرسل فنافی اللہ،
کاش!کر لیں مجھے فنا مرشد۔

हाथ  पकड़े  रहो   अक़ीदत   से,
ला  मकाँ  का  हैं रास्ता मुरशिद।
ہاتھ پکڑے رہو  عقیدت سے،
لامکاں کاہئیں راستہ مرشد۔

है  यदुल्लाह   फ़ौक़  ऐदीहिम,
दस्त  दस्ते-ख़ुदा  तिरा  मुरशिद।
ہے ید اللہ فوق ایدیہم،
دست دستِ خداترا مرشد۔

बुतशिकन, बुतपरस्,बुतों वाला,
एक सूरत का बुतकदा मुरशिद।
بتشکن بتپرس  بتوں  والا،
ایک صورت کابتکدہ مرشد۔

ताक  चहरा "बहार" सुब्हो-मसा,
ला पता  का  हसीं पता मुरशिद।
تاک چہرہ بہآرصبح ومسا،
لا پتہ کا حسیں پتہ مرشد
-डॉ. बहार चिश्ती नियामतपुरी 
23 अप्रैल 2018


 
” سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس سے معافی مانگتے ہیں۔ اسی کے پاس توبہ کرتے ہیں اور ہم اللہ ہی کے ہاں اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
اللہ کے بندو! میں تمھیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر پر زور طور پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جو بھلائی ہے۔
لوگو! میری باتیں سن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔
ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔
خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔
لوگو! تمھارے خون تمھارے مال اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمھیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمھارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔
جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔ (ربیعہ بن حارث آپ کا چچیرا بھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا)
اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمھارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔
لوگو! تمھاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کیے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔
اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے بارہ ہے جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین (ذیقعد ذوالحجہ اور محرم) لگا تار ہیں اور رجب تنہا ہے۔
لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمھارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ ، اچھی طرح پہناؤ۔
تمھارے غلام تمھارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔
خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو، زناکار کے لیے پتھر اوران کے حساب خدا کے ذمہ ہے۔
عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ عاریت واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔
مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔
اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمھارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرماں برداری کرو۔
لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔
میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔


   
فردوس خان
  شوگر ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے انسان کی زندگی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔  وہ مٹھائیاں، پھل، آلو، کولکاشیا اور اپنی پسند کی بہت سی دوسری چیزیں نہیں کھا سکتا۔  اس کے ساتھ اسے مختلف قسم کی دوائیں بھی لینا پڑتی ہیں۔  کوئی بھی دوا نہیں کھانا چاہتا، جو مجبوری سے لینی پڑتی ہے، اس کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔  اس سے انسان مزید پریشان ہو جاتا ہے۔  پچھلے کئی دنوں سے ہم شوگر کے روحانی اور گھریلو علاج کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہیں۔  ہم نے شوگر کے بہت سے مریضوں سے بات کی۔  ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کا مہنگا علاج ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔  بہت سے ایسے لوگ بھی پائے گئے جنہوں نے گھریلو علاج کیا اور بہتر محسوس کر رہے ہیں۔  ذیابیطس کے مریض ڈاکٹروں سے دوائیں لیتے ہیں۔  لیکن ہم آپ کو ایسے علاج کے بارے میں بتائیں گے، جس کی وجہ سے مریض کو دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔
  جامن پہلا علاج ہے
  جی ہاں، جامن شوگر کا بہترین علاج ہے۔  عام طور پر تمام طریقوں کی شوگر کی دوائیں جامن سے تیار کی جاتی ہیں۔  بارش کے موسم میں بیریاں وافر مقدار میں آتی ہیں۔  اس موسم میں درخت بیریوں سے لدے ہوتے ہیں۔  جب تک موسم ہے شوگر کے مریض زیادہ سے زیادہ جامن کھائیں۔  اس کے علاوہ بیر کی گٹھلیوں کو دھو کر خشک رکھیں۔  کیونکہ جب جامن کا موسم نہ ہو تو ان گٹھلیوں کو پیس کر ایک چھوٹا چمچ اس کا پاؤڈر صبح خالی پیٹ کھائیں۔  جامن کے چار پانچ پتے صبح و شام کھانے سے بھی شوگر کنٹرول میں رہتی ہے۔  جامن کے پتے سال بھر آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔  جن لوگوں کے گھروں کے قریب جامن کے درخت نہیں ہیں وہ جامن کے پتے منگوا لیں اور انہیں دھو کر خشک کر لیں۔  پھر ان کو پیس کر استعمال کریں۔  اس کے علاوہ بیر کی کچھ چھوٹی ٹہنیاں مٹی کے برتن میں ڈال دیں۔
  اور اس کا پانی پیو۔  اس سے بھی فائدہ ہوگا۔
 نیم کا دوسرا علاج ہے
  نیم کے سات سے آٹھ سبز نرم پتے صبح خالی پیٹ چبانے سے شوگر کنٹرول میں رہتی ہے۔  خیال رہے کہ نیم کے پتے کھانے کے بعد دس سے پندرہ منٹ بعد ناشتہ کریں۔  نیم کے پتے آسانی سے دستیاب ہیں۔
  امرود تیسرا علاج ہے
رات کو امرود کے دو تین پتوں کو دھو کر پیس لیں۔  پھر اسے شیشے یا سرامک کے برتن میں بھگو دیں۔  خیال رہے کہ بردھات کا نہ ہو۔  اسے صبح خالی پیٹ پینے سے شوگر کنٹرول میں رہتی ہے۔
  یہ تینوں علاج ایسے ہیں کہ آسانی سے دستیاب ہیں۔  شوگر کا کوئی بھی مریض ان کو اپنا کر آرام حاصل کر سکتا ہے۔  ان تینوں میں سے کوئی ایک علاج کرنے کے ایک ماہ بعد شوگر ٹیسٹ کروانے سے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا کتنا فائدہ ہوا ہے۔

 

فردوس خان 
  گردے کی پتھری اب ایک عام بیماری بن چکی ہے۔  پتھری ناقابل برداشت درد کا باعث بنتی ہے۔  پیشاب میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔  اس کی وجہ سے گردوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
  ڈاکٹروں کے مطابق کیلشیم، آکسالیٹ، یورک ایسڈ اور سیسٹائن جیسے مادے پیشاب میں جمع ہو کر کرسٹل بنتے ہیں۔  پھر یہ کرسٹل گردے سے جڑ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ پتھری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔  ان میں 80 فیصد پتھر کیلشیم سے بنتے ہیں اور کچھ پتھر کیلشیم آکسالیٹ اور کچھ کیلشیم فاسفیٹ سے بنتے ہیں۔  باقی پتھری یورک ایسڈ، انفیکشن اور سیسٹائن سے بنتی ہے۔
  گردے کی پتھری کے بہت سے علاج ہیں۔  آج ہم کچھ ایسے ہی علاج کے بارے میں بتا رہے ہیں، جن سے لوگوں کو پتھری سے نجات مل گئی۔
  پتھری کا مریض کتنے دنوں میں اس سے نجات پاتا ہے، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ گردے میں کتنی اور کس سائز کی پتھری ہے۔  اس کے ساتھ خوراک بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔  مثلاً پتھری کے مریض کو چاہیے کہ کیلشیم اور آئرن سے بنی چیزیں کم کریں۔  اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔
  زیتون، شہد اور لیموں
  ایک چمچ زیتون کا تیل، ایک چمچ شہد اور ایک لیموں کا رس ایک گلاس پانی میں ملا کر روزانہ پینے سے پتھری ٹوٹ جاتی ہے اور پیشاب کے ساتھ جسم سے باہر آجاتی ہے۔
  کھیرا
  دیسی کھیرا پتھری کے مریضوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔  دیسی کھیرے کو چھلکے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کھایا جائے۔  اس کی وجہ سے پتھری ٹوٹ جاتی ہے اور پیشاب کے ساتھ باہر آجاتی ہے۔
  مولی
  پتھری کے مریضوں کے لیے بھی مولی بہت فائدہ مند ہے۔  مولی کو سبزی یا سلاد کی شکل میں زیادہ سے زیادہ کھانا چاہیے۔  اس کی وجہ سے پتھری ٹوٹ جاتی ہے اور پیشاب کے ساتھ باہر آجاتی ہے۔
  سوڈا
  سوڈا پتھری کے مریضوں کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔  سوڈا مسلسل پینے سے پتھری ٹوٹ جاتی ہے اور پیشاب کے ساتھ باہر آجاتی ہے۔
  اب بات کرتے ہیں ہومیوپیتھی دوا کی۔  Berberis Vulgaris Mother Tincture Q کے 5-5 قطرے دن میں تین بار لینے سے پتھری ٹوٹ جاتی ہے اور پیشاب کے ساتھ جسم سے باہر آجاتی ہے۔
  مزید مسائل کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔


 
فردوس خان
ہر تیسرا شخص کسی نہ کسی درد سے پریشان ہے۔ کسی کو پورے جسم میں درد ہوتا ہے، کسی کو کمر میں درد ہوتا ہے، کسی کو گھٹنوں میں درد ہوتا ہے اور کسی کو ہاتھ پاؤں میں درد ہوتا ہے۔ اگرچہ درد کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یورک ایسڈ بھی ہے۔
درحقیقت یورک ایسڈ ایک فضلہ مادہ ہے، جو کھانے کے ہضم ہونے سے پیدا ہوتا ہے اور اس میں پیورین ہوتا ہے۔ جب پیورین ٹوٹ جاتا ہے تو یہ یورک ایسڈ بناتا ہے۔ گردہ یورک ایسڈ کو فلٹر کرتا ہے اور اسے پیشاب کے ذریعے جسم سے نکال دیتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے کھانے میں پیورک کی زیادہ مقدار استعمال کرتا ہے تو اس کا جسم اس رفتار سے یورک ایسڈ کو جسم سے خارج نہیں کر سکتا۔ جس کی وجہ سے جسم میں یورک ایسڈ کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں یورک ایسڈ خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیلنا شروع ہو جاتا ہے اور یورک ایسڈ کے کرسٹل جوڑوں میں جمع ہو جاتے ہیں جس سے جوڑوں میں سوجن ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے جوڑوں کا درد بھی ہوتا ہے۔ جسم میں ناقابل برداشت درد ہوتا ہے۔ یہ بھی گردے میں پتھری کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے پیشاب کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثانے میں ناقابل برداشت درد ہوتا ہے اور پیشاب میں جلن ہوتی ہے۔ پیشاب کثرت سے آتا ہے۔ یہ یورک ایسڈ صحت مند انسان کو بیمار کرتا ہے۔
یورک ایسڈ سے بچنے کے لیے اپنی خوراک پر خصوصی توجہ دیں۔ دال پکاتے وقت اس سے جھاگ نکال لیں۔ نبض کم استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ دالیں بغیر کھالوں کے استعمال کرنا بہتر ہے۔ رات کو دال، چاول اور دہی وغیرہ کھانے سے پرہیز کریں۔ اگر ممکن ہو تو فائبر سے بھرپور غذائیں کھائیں۔
جو
یورک ایسڈ سے نجات کے لیے جو کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ جو کی خاصیت یہ ہے کہ یہ یورک ایسڈ کو جذب کرتا ہے اور اسے جسم سے باہر نکالنے میں موثر ہے۔ اس لیے جو کو اپنی روزمرہ کی خوراک میں ضرور شامل کریں۔ گرمیوں کے موسم میں آپ جو کا ستّو پی سکتے ہیں، آپ جو کا دلیہ بنا سکتے ہیں، آپ جو کے آٹے کی روٹی بنا سکتے ہیں۔
جیرا
یورک ایسڈ کے مریضوں کے لیے بھی زیرہ بہت فائدہ مند ہے۔ زیرہ میں فولاد، کیلشیم، زنک اور فاسفورس وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں اینٹی آکسیڈنٹس زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو یورک ایسڈ کی وجہ سے جوڑوں کے درد اور سوجن کو کم کرتے ہیں۔ یہ جسم سے زہریلے مادوں کو باہر نکالنے میں بھی مددگار ہے۔
لیموں
لیموں میں موجود سائٹرک ایسڈ جسم میں یورک ایسڈ کی سطح کو بڑھنے سے روکتا ہے۔
مزید مسائل کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔


 
فردوس خان-
  درد شقیقہ کا مطلب ہے آدھے سر کا درد۔  درد شقیقہ میں مبتلا شخص کو بار بار شدید سر درد ہوتا ہے۔  عام طور پر یہ درد سر کے نصف حصے میں ہوتا ہے اور وقفے وقفے سے پیدا ہوتا ہے۔  اگرچہ بہت سے لوگوں کو پورے سر میں درد بھی ہوتا ہے۔  درد شقیقہ کا مریض تیز روشنی اور تیز آواز کو برداشت نہیں کرسکتا۔  سر درد کی وجہ سے وہ چڑچڑا ہو جاتا ہے۔
  درد شقیقہ کا علاج صرف ہمارے گھر میں موجود ہے۔  سونف اپنی ضرورت کے مطابق لیں۔  سونف کے آدھے دانے کو دیسی گھی میں ہلکا سنہری ہونے تک بھونیں۔  جب یہ ٹھنڈا ہو جائے تو کچی سونف میں بھنی ہوئی سونف ملا دیں۔  اسے ڈبے یا جار میں بھر کر رکھ لیں۔  اسے دن میں تین سے چار بار کھائیں۔  انشاء اللہ چند دنوں میں فرق محسوس ہو جائے گا۔
  ہم نے بہت سے درد شقیقہ کے مریضوں کو بچپن سے لے کر اب تک اس علاج سے ٹھیک ہوتے دیکھا ہے۔  ہماری پیاری والدہ مرحومہ ہما خوشنودی خان عرف چاندنی خان نے ہمیں یہ علاج بتایا۔
  مزید مسائل کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔


  اپنے پیارے آقا حضرت محمًد
صلً اللہ علیہ وسلم کی شان میں 


... عقیدت کے پھول
میرے پیارے آقا
میرے خدا کے محبوب 
صلً اللہ علیہ وسلم
آپ کو لا کھوں سلام 
پیارے آقا 
ہر صبح 
چمبیل کے 
مہکتے سفید پھول 
چنتی ہوں 
اور سوچتی ہوں 
یہ پھول کس طرح آپ کی خدمت میں پیش کروں 
میرے آقا 
چاہتی ہوں 
آپ ان پھولوں کو قبول کریں 
کیونکہ 
یہ صرف چمبیل کے 
پھول نہیں ہیں 
یہ میری عقیدت کے پھول ہیں 
جو آپ کے لئے ہی کھلے ہیں 
فردوس خان-


 فردوس خان 
ملک میں غذائی تحفظ (فوڈ سیکورٹی) بل کو منظوری ملنے سے فاقہ کشی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کچھ حد تک کمی آئے گی، ایسی امید کی جا سکتی ہے۔حال ہی میں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کی صدارت والی قومی صلاح کار کمیٹی( این اے سی) نے قومی غذائی تحفظ بل 2011 کو منظوری دی ہے۔ اس کا مقصد فاقہ کشی کے شکار لوگوں کو غذائی تحفظ فراہم کرانا ہے۔اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پاس ہو جاتا ہے تو ملک کے عوام کو رعایتی قیمتوں پر اشیاء خوردنی مل سکے گی۔بل کے مطابق،46فیصد گائوں میں رہنے والے اور 28 فیصد شہر میں رہنے والے خاندانوں کو ترجیحی گروپ میں شامل کیا جائے گا۔ ان خاندان کے فی ممبر سات کلواناج یعنی تین روپے کلو گیہوں، دو روپے کلو چاول اور ایک روپے کلو کی شرح سے موٹااناج لے سکیں گے۔ 49 فیصد دیہات کے لوگ اور 22 فیصد شہر میں رہنے والے خاندانوں کو عام درجے کے گروپ میں رکھا گیا ہے۔انہیں چار روپے کلو کی شرح سے اناج ملے گا۔

ملک کی 32 فیصد آ بادی غریبی سطح کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ، جو فصل کاٹے جانے کے بعد کھیت میں بچے ہوئے اناج اور بازار میں پڑی گلی سڑی سبزیاں سمیٹ کر کسی طرح اس سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔بڑے شہروں میں بھی بھوک سے بے حال لوگوں کو کوڑے دانوں میں سے روٹی یا بریڈ کے ٹکڑوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ روزگار کی کمی اور غریبی کی مار کی وجہ سے کتنے ہی خاندان چاول کے کچھ دانوں کو پانی میں ابال کر پینے کو مجبور ہیں۔ ایک طرف گوداموں میں لاکھوں ٹن اناج سڑتا ہے تو دوسری طرف لوگ بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں۔ایسی حالت کے لیے کیا انتظامیہ سیدھے طور پر قصوروار نہیں ہے؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت بل کو منظور کرانے کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنائے کہ اس منصوبے پر ایمانداری سے عمل ہو۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک غریبوں کی بھلائی کے لیے منصوبے تو کئی بنائے گئے ہیں لیکن لال فیتہ ہی کی وجہ سے وہ محض کاغذوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے ۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تو اسے قبول کرتےہوئے یہاں تک کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے چلا ایک روپیہ غریبوں تک پہنچتے پہنچتے پندرہ پیسے ہی رہ جاتا ہے۔

ملک میں ہر روزقریب سوا آٹھ کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں، جبکہ ہر سال لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اناج کی بربادی پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے مرکزی سرکار سے کہا تھا کہ گیہوں کو سڑانے سے اچھا ہے، اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کورٹ نے اس بات پر بھی حیرانی جتائی تھی کہ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں اناج سڑ رہا ہے، وہیں تقریبا 20 کروڑ لوگ قلت غذا کے شکار ہیں۔ گزشتہ سال 12 اگست کو سماعت کے دوران جسٹس دلویر بھنڈاری اور جسٹس دیپک ورما کی بنچ نے حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ہر صوبے میں ایک بڑا گودام بنایا جائے اور ہر ایک ڈویژن ، ضلع میں بھی گودام بنائے جائیں، کورٹ نے یہ بھی کہا کہ خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کو مضبوط کیا جائے۔ساتھ ہی یہ یقینی بنایا جائے کہ مناسب قیمت کی دکانیں مہینے بھر کھلی رہیں۔ اس سے پہلے 27 جولائی کو سنوائی میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، وہاں اناج کا ایک بھی دانا بیکار چھوڑنا گناہ ہے۔ مگر کورٹ کے حکم پر کتنا عمل ہوا، کسی سے چھپا نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ ماہ تک  پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت لوگوں کو اناج تقسیم کیا گیا، لیکن اس میں بھی دھاندلی کیے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔

پچھلے کافی عرصے سے ہر سال لاکھوں ٹن گیہوں برباد ہو رہا ہے۔ بہت سا گیہوں  کھلے آسمان کے نیچے بارش میں بھیک کر سڑ جاتا ہے۔ وہیں گوداموں میں رکھے اناج کا بھی 15 فیصد حصہ ہر سال خراب ہوجاتا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق، انڈین فوڈ کارپوریشن (ایف سی آئی) کو گوداموں میں سال 1997 سے 2007 کے دوران 1.83 لاکھ ٹن گیہوں، 6.33 لاکھ ٹن چاول ، 2.20 لاکھ ٹن دھان اور 111 ٹن مکا سڑ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کولڈ اسٹوریج کی کمی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے کی سبزیاں اور پھل بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق، پچھلے چھ برسوں میں پورے ملک کے گوداموں میں 10 لاکھ 37 ہزار 738 ٹن اناج سڑ چکا ہے۔ ساتھ ہی ان گوداموں کی صفائی پر تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ایف سی آئی کے مطابق، پچھلے سال جنوری تک 10,688 لاکھ ٹن اناج خراب ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال دو لاکھ ٹن اناج خراب ہو جاتا ہے۔

موصولہ اطلاع کے مطابق، پچھلے سال سرکاری ایجنسیوں نے چھ کروڑ ٹن اناج خریدا، جبکہ گودام میں 447.09  لاکھ ٹن اناج رکھنے کی صلاحیت ہے۔ ایسے میں باقی بچے اناج کو کھلے آسمان کے نیچے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً 28   ہزار کروڑ روپے کا اناج کھلے میں پڑا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک تو پہلے ہی گوداموں کی کمی ہے، اس کے باوجود سرکاری گوداموں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو کرائے پر دے دیا جاتا ہے اور اناج کھلے میں سڑتا رہتا ہے۔ جن گوداموں میں اناج رکھنے کی جگہ بچی ہوئی ہے،لا پرواہی کی وجہ سے وہاں بھی اناج نہیں رکھا جاتا ہے۔ کھلے میں پڑے اناج کو ترپال یا پلاسٹک شیٹ سے ڈھک دیا جاتا ہے، لیکن بارش اور پانی بھر جانے کی وجہ سے اناج محفوظ نہیں رہ پاتا۔ پانی میں بھیگے اناج میں کونپل پھوٹنے لگتی ہے اور کچھ دنوں بعد سڑ جاتا ہے۔گوداموں میں رکھے اناج کو کیڑوں اور چوہوں سے بچانے کے بھی انتظام نہیں کیے جاتے، جس سے اناج میں کیڑے لگ جاتے ہیں اور اناج کو چوہے کھا جاتے ہیں۔ افسران کے ذریعہ چوری چھپے سرکاری اناج بیچنے کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔ گوداموں سے کم ہوا اناج چوہوں کے حصے میں لکھ دیا جاتا ہے۔

حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف  ملک کے پاس اناج کا اتنا ذخیرہ  ہے کہ اسے رکھنے تک کی جگہ نہیں ہے، دوسری طرف ملک کی ایک بڑی آبادی کو پیٹ بھر  کھانا نصیب نہیں ہو پاتا ہے۔ یہ آبادی فاقہ کشی کی لپیٹ میں ہے ۔ گلوبل ہنگر   انڈیکس میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے 88 ملکوں کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کو 66 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ہندوستان کے اندر پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں کی خوراک میں کمی آئی ہے۔دیہاتی علاقوں میں ہر آدمی کی اوسطاً خوراک  1972-1973 میں 2266 کیلوری یومیہ تھی، جو اب کم ہو کر 2149 رہ گئی ہے۔ ملک میں آبادی 1.9 فیصد کے اوسط سے بڑھی ہے، وہیں غذائی پیداوار 1.7 فیصد کے اوسط سے کم ہوا ہے۔

قومی خاندانی صحت سروے کی رپورٹ کے مطابق ، ملک میں 46 فیصد بچے انیمیا کا شکار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میںتین سال سے کم عمر کے قریب 47فیصد بچے کم وزن کے شکار ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی جسمانی نشو و نما بھی رک گئی ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں 33.1 فیصد بچے انیمیا کی لپیٹ میں ہیں، جبکہ مدھیہ پردیش میں 60.3 فیصد، جھارکھنڈ میں 59.2 فیصد ، بہار میں 58 فیصد، چھتیس گڑھ میں 52.2 فیصد، اڑیسہ میں 44 فیصد، راجستھان میں 44 فیصد، ہریانہ میں 41.9 فیصد، مہاراشٹر میں 39.7 فیصد ،اتراکھنڈ میں 38 فیصدی، جموں و کشمیر میں 29.4 فیصد اور پنجاب میں 27 فیصد بچے  انیمیا کی زد میں ہیں۔یونیسیف کے ذریعہ جاری ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے کل انیمیا زدہ بچوں میں سے ایک تہائی آبادی ہندوستانی بچوں کی ہے۔ہندوستان میں پانچ کروڑ 70 لاکھ بچے انیمیا کے شکار ہیں۔ پوری دنیا میں کل 14 کروڑ 60 لاکھ بچے انیمیا کی زد میں ہیں۔ اس اضافے کی موجودہ رفتار ایسی ہی رہی تو 2015 تک انیمیا کا اوسط آدھا کر دینے کا ہدف 2025 تک بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ رپورٹ میں ہندوستان میں انیمیا کے اوسط کا مقابلہ دیگر ملکوں سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں انیمیا کا اوسط ایتھوپیا ، نیپال اور بنگلہ دیش کے برابر ہے۔ ایتھوپیا میں انیمیا کااوسط 47 فیصد اور نیپال اور بنگلہ دیش میں 48-48 فیصد ہے، جو چین کے آٹھ فیصد، تھائی لینڈ کے 18 فیصد اور افغانستان کے 39  فیصد کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔

مرکزی حکومت نے غذائی پیداوار میں آئے ٹھہرائو اور بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگست 2007  میں مرکز ی اسپانسرڈ غذائی  تحفظ مشن اسکیم شروع کی تھی،اس کا مقصد گیہوں، چاول اور دال کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا، تاکہ ملک میں غذائی تحفظ کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ قومی غذائی تحفظ مشن کے تحت چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے 14 ریاستوں کے 136 ضلعوں کومنتخب کیا گیا ہے۔ ان ریاستوں میں آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اڑیسہ ، تمل ناڈو، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ گیہوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 9 ریاستوں کے 141 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں پنجاب ، ہریانہ، اتر پردیش ، بہار،  راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اسی طرح دال کی پیداوار بڑھانے کے لیے14 ریاستوں ، کے 171 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں آندھرا پریش، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر، اڑیسہ راجستھان، تمل ناڈو، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ان ضلعوں کے 20 ملین ہیکٹیئر دھان کے علاقے، 13 ملین  ہیکٹیئر گیہوں کے علاقے اور 4.5 ملین ہیکٹیئر دال کے علاقے شامل کیے گئے ہیں۔ جو دھان اور گیہوں کے کل بوائی علاقے کا 50 فیصد ہے۔ دال کے لیے مزید 20 فیصدی علاقے تیار کیے جائیں گے۔در اصل بڑھتی مہنگائی نے کم آمدنی والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں صرف ٖغذائی تحفظ بل بنانے سے کچھ خاص ہونے والا نہیں  ہے۔ حکومت کو ہر اعتبار سے عوام کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔


فردوس خان 
آزادی کی 6دہائی گزر جانے کے بعد بھی ہمارے ملک میں بندھوا مزدوری مسلسل جاری ہے۔حالانکہ حکومت نے 1975میں ایک آرڈینینس کے ذریعہ بندھوا مزدوری پر پابندی عائد کر دی تھی، مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حکومت بھی اس  بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ملک میں بندھوا مزدوری ابھی بھی جاری ہے۔دور جانے کی ضرورت  نہیں ، ملک کی راجدھانی دہلی کو ہی لے لیجئے، پولس نے گزشتہ دنوں راجدھانی کے نبی کریم علاقہ میں ایک بیگ بنانے والے کارخانہ میں کام کرنے والے 22بچوں کو آزاد کرایا۔ان  بچوں کی عمر محض7سے 12سال کے درمیان ہے۔شکایت ملنے پر سینٹرل ڈسٹرکٹ ٹاسک فورس، این سی او سلام بالک ٹرسٹ اور ہیومن رائٹس لاء نیٹورک، دہلی پولس اور لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسران اور نمائندوں نے کارخانہ پر چھاپہ مارا تھا۔ان بچوں میں بیشتر بچے بہار کے سیتا مڑھی، دربھنگا اور نیپال کے بتائے گئے۔ افسران کے مطابق، ان بچوں سے روزانہ 12سے 14گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔

صوبائی وزیر برائے محنت اور روزگار ہریش راوت کے مطابق،  31مارچ تک دو لاکھ 88ہزار 462بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا جا چکا ہے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے 7015.46لاکھ روپے مہیا کرائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر ضلع میں سروے کرانے کے لئے مختلف ریاستی حکومتوں کو 676لاکھ روپے دئے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر کی ہدایات کے مطابق بندھوا مزدورسسٹم استیصال قانون 1976کے تحت عمل درآمد کی نگرانی کے لئے لیبر اینڈ امپلائمنٹ سکریٹری کی صدارت میں ایک خصوصی گروپ بھی تشکیل کیا گیا ہے، جس کی اب تک علاقہ در علاقہ 18میٹنگیں ہو چکی ہیں۔ حکومت نے 1980میں اعلان کیا تھا کہ اب تک ایک لاکھ 20ہزار 500بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا جا چکا ہے۔ لیبراینڈ امپلائمنٹ منسٹری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ملک میں19ریاستوں سے 31مارچ تک دو لاکھ 86ہزار 612بدھوا مزدوروں کی نشاندہی کی گئی اور انہیں آزاد کرایا گیا۔ نومبر تک صرف ایک ہی ریاست اتر پردیش میں سے 28ہزار 385میں سے صرف 58بندھوا مزدوروں کو بازآباد کیا گیا، جبکہ بقیہ 18ریاستوں  میں ایک بھی بندھوا مزدوروں کی نو آبادکاری نہیں کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق، ملک میں سب سے زیادہ تمل ناڈو میں65ہزار 573بندھوا مزدوروں کی نشاندہی کر کے انہیں آزاد کرایا گیا۔ کرناٹک میں 63ہزار 437اور اڑیسہ میں 50ہزار 29بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 19ریاستوں کو 68کروڑ 68لاکھ 42ہزار روپے کی مرکزی امداد مہیا کرائی گئی، جس میں سب سے زیادہ رقم 16کروڑ 61لاکھ 66ہزار 94روپے راجستھان کو دئے گئے۔ 15کروڑ 78لاکھ 18ہزار روپے کرناٹک اور 9کروڑ 3 لاکھ 34ہزار روپے اڑیسہ کو مہیا کرائے گئے۔ اسی میعادکے دوران سب سے کم مرکزی امداد اتراکھنڈ کو مہیا کرائی گئی۔ اتر پردیش کو 5 لاکھ 80ہزار روپے کی مرکزی امداد فراہم کرائی گئی۔ علاوہ ازیں ارونا چل پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، دہلی، گجرات اور اتراکھنڈ کو 31مارچ 2006تک بندھوا بچوں کا سروے کرانے اور بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے پروگرام کرنے کے لئے 4کروڑ 20لاکھ روپے دئے گئے۔لیبر منسٹری کے ڈائریکٹر جنرل انل سوروپ کے مطابق بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری کے لئے، انہیں آزاد کرنے کے بعدفوری طور پرہر مزدورکو ایک ہزار روپے کی فوری امداد،19ہزار روپے کی بازآبادکاری امداد، رہائش، زراعتی زمین اور روزگار کے وسائل مہیا کرانے کی تجویز ہے۔راجستھان کے چیف سکریٹری برائے لیبر اینڈ پلاننگ منوہر کانت کے مطابق، ریاست میں1976سے اب تک 11ہزار 319بندھوا مزدوروں کی نشاندہی کی گئی۔ ان میں سے 9ہزار 112مزدوروں کی بازآبادکاری کی گئی، جبکہ 1467کو دیگر دوسری ریاست میں بازآبادکاری کے لئے بھجوایا گیا۔ ریاست میں بندھوا مزدور رکھنے والوں کے خلاف 370چالان پیش گئے گئے، جن میں137معاملے خارج، 75میں جرمانہ،56معاملوں میں سزا دی گئی اور 102معاملوں میں ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ راجستھان میں عمارت اور دیگر تعمیری ورکرس ویلفیئر ایکٹ کے تحت 50لاکھ آلات کی شکل میں وصول کئے گئے اور 7ہزار 497مزدوروں کا رجسٹریشن کیا گیا۔

جے پور کے سانگانیر میں مزدوری کا کام کر رہے ستیہ پرکاش نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ الور کے ساگر اینٹ بھٹے پر کام کرتا تھا، جہاں اسے کنبہ سمیت بندھوا مزدور کے طور پر رکھا گیا تھا۔ ٹھیکیدارانہیں نہ تو پوری مزدوری دیتے تھے اور نہ اسے جانے دیتے تھے۔ یہاں مزدوروں سے 15سے 16گھنٹے کام کرایا جاتا ہے۔ ان مزدوروں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔گزشتہ مئی ماہ میں بندھوا مکتی مورچہ کی شکایت پر ایس ڈی ایم، نائب تحصیلدار اور لیبر انسپکٹر نے ریونیو اسٹاف کے ساتھ بھٹے پر چھاپہ مار کر مزدوروں کو آزاد کرایا۔ستیہ پرکاش کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مزدوروں کو بھی آزاد کرایا گیا۔انتظامیہ نے انہیں بقایہ ادائیگی کے علاوہ کرایا بھی دلوایا۔ ملک میں ایسے ہی کتنے بھٹے اور دیگر کاروباری دھندے ہیں، جہاں مزدوروں کو بندھوا بنا کر ان سے سخت محنت کرائی جاتی ہے اور مزدوری کے عوض میںبرائے نام پیسے دئے جاتے ہیں، جن سے انہیں دو وقت کی بھرپیٹ روٹی تک نصیب نہیں ہو پاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،لیکن جب بندھوا مکتی مورچہ جیسی تنظیموں کے ذریعہ انتظامیہ پر دبائو بنایا جاتا ہے تو افسران نیند سے بیدار ہوتے ہیںاور کچھ جگہوں پر چھاپہ ماری کی رسم ادا کر لیتے ہیں۔ مزدور سریندر کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو ٹھیکیداروں کی من مانی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ انہیں ہر روز کام نہیں مل پاتا، اس لئے وہ کام کی تلاش میں اینٹ بھٹوں کا رخ کرتے ہیں، مگر وہاں بھی انہیں غیر انسانی صورتحال میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی مزدور بیمار ہو جائے تو اسے دوا ملنا تو دور ، آرام تک کرنے نہیں دیا جاتا ۔

دراصل، انگریزی دور حکومت میں نافذ کئے گئے زمینی بندوبست نے ہندوستان میں بندھوا مزدوری کی بنیادڈالی تھی۔اس سے پہلے تک زمین کو جوتنے والا زمین کا مالک ہوتا تھا۔ زمین کی ملکیت پر راجائوں اور جاگیرداروں کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ انہیں وہی ملتا تھا، جو ان کا واجب حق ہوتا تھا اور یہ کلپیدوار کا ایک فیصد حصہ ہوتا تھا۔ کسان ہی زمین کے مالک ہوتے تھے۔ حالانکہ زمین کا اصلی مالک راجا تھا۔ پھربھی ایک بار جوتنے کے بعد ملکیت کسان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ راجا کی بادشاہت اور کسان کی ملکیت کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی تنازعہ نہیںہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی گئی، لیکن کسانوں کی زمین کی ملکیت پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑا، راجا اور کسانوں کے درمیان کوئیثالث بھی نہیں تھا۔ زمینی نظم ٹھیک سے چلانے کے لئے راجا گائووں میں مکھیا مقرر کرتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی گئی اور زمین کے مالک کا درجہ رکھنے والا کسان محض زراعتی مزدور بن کر رہ گیا۔

کہنے کو تو لیبر سسٹم ایکٹ 1976کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی بندھوا مزدوری پر پابندی عائد ہو چکی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیبر قانونوں کی لچک کے سبب مزدوروں کے استحصال کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی ہمارے ملک میں مزدوروں کی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے۔ خواندگی اور بیداری نہ ہونے کے سبب اس طبقہ کی جانب کسی کا دھیان نہیں گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے، تاکہ مزدوروں کو استحصال سے نجات مل سکے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مزدور بھی اس ملک کی آبادی کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں اور ملک کی ترقی کی علامت بنیں فلک بوس عمارتوں میں ان کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔


فردوس خان
وقت  بدلا، حالات بدلے، لیکن نہیں بدلیں تو زندگی کی دشواریاں، آنسوئوں کا سیلاب نہیں تھما، اپنوں کے گھر لوٹنے کے انتظار میں پتھرائی آنکھوں کی پلکیں نہیں جھپکیں، اپنوں سے بچھڑنے کی تکلیف سے بے حال دل کو قرار نہ ملا۔ یہی ہے میرٹھ فساد متاثرین کی داستان۔میرٹھ کے ہاشم پورہ میں 22مئی 1987اور ملیانہ گائوں میں23مئی 1987کو حیوانیت کا جو ننگا ناچ ہوا، اس کے نشان آج بھی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان فسادوں نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ عورتوں کو بیوہ بنا دیا، بچوں کے سر سے باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا۔ کئی گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ فسادیوں نے گھروں میں آگ لگا دی، لوگوں کو زندہ جلا دیا، عورتوں کو تلوار وںسے کاٹا گیا، معصوم بچوں کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا گیا۔عالم یہ تھا کہ لوگوں کو دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ یہاں کے قبرستان کی ایک ایک قبر میں تین تین لوگوں کو دفنایا گیا۔یہاں مرنے والے زیادہ ماتم کرنے والے کم تھے، جو زندہ تھے، وہ بھی زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ برسوں تک کانوں میں اپنوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں گونجتی رہیں۔ انسانوں سے آباد ایک پوری بستی شمشان میں تبدیل ہو چکی تھی، جہاں صرف آگزنی اور تباہی کا ہی منظر تھا۔

ملیانہ کے محمد یونس اپنے بھائی محمود کا کھنڈر ہو چکا مکان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی یہاں ایک خوشحال خاندا ن رہتا تھا، گھر میں بچوں کی کلکاریاں گونجتی تھیں، لیکن آج یہ پوری طرح ویران ہے۔23مئی کو فسادیوں نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس آگ میں ان کے بھائی محمود، بھابھی نسیم اور چار بچے عارف، وارث، آفتاب اور مسکان جل کر مر گئے۔جب مکان سے لاشیں نکالی گئیں تو ان کے بھائی اور بھابھی نے اپنے بچوں کو سینہ سے لگایا ہوا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کی روح تک کانپ اٹھی۔بعد میں ان لاشوں کو ایسے ہی دفنا دیا گیا۔ اس حادثہ میں ان کی بھتیجی تبسم بچ گئی ، جو اس وقت اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی تھی۔

بیٹے دلشاد کا نام آتے ہی علی حسن کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت دلشاد کی عمر آٹھ سال تھی۔ فسادیوں نے پہلے تو پیر پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ پٹخ کر مارا ، پھر اس کے بعد جلتے ہوئے رکشہ پر پھینک دیا۔ وہ زندہ جل کر مر گیا۔ فسادیوں نے اس کے گھر کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ معراج نے بتایا کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اشرف کی گردن میں گولی ماری اور انھوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔یہیں کے یامین بتاتے ہیں کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اکبر کو پہلے تو بری طرح پیٹا اور پھر بعد میں انہیں زندہ جلادیا تھا۔
محمودن بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں آ گ لگا دی تھی، جس میں ان کے سسر عبد الرشید اور ساس عیدیہ کی جل کر موت ہو گئی تھی۔ آگ اتنی ہولناک تھی کہ ان کے ساس سسر کی لاشیں تک نہیں مل پائیں۔ ان کے شوہر نواب اپنے بھائی صابر، مظفر کے ساتھ کسی دوسرے گھر میں گئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی نندوں شبانہ اور بانو اور بچوں رئیس الدین ، رئیسہ اور شہاب الدین کو لے کر پہلے ہی گھر سے نکل کر وہاں آ چکی تھیں، جہاں گائوں کے لوگ جمع تھے۔یہاں انھوں نے کئی دنوںتک فاقے کیے۔ اس حادثہ کے بعد وہ مع کنبہ اپنے مائکہ شید پور چلی گئیں۔ کچھ وقت بعدان کے شوہر ملیانہ آئے اور ایک عدد چھت کا بندوبست کیا۔

رضیہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کی شادی ہوئی تھی۔ گھر میں اچھی خاصی رونق تھی، لیکن فسادیوں نے اس خوشی کو ماتم میں بدل دیا۔ فسادیوں نے پہلے تو گھر میں لوٹ مار کی، پھر آگ لگا دی۔ ان کے سسر اللہ راضی کو بری طرح پیٹا گیا۔ شکیلہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے شوہر اشرف کو گولی مار کر ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ کر ڈالی۔ اگر فسادیوں نے انہیں بھی مار دیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ جنت بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں بھی آگ لگا دی تھی، کسی طرح انھوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ آٹھ دنوں کے بعد جب ان کا پریوار گھر لوٹا تو دیکھا کہ راکھ اب بھی گرم تھی۔فسادیوں کے قہر کی انتہا تو تب ہو گئی جب فسادیوں نے حاملہ کنیز کو تلوار سے کاٹ ڈالا ۔ اسی طرح شہانہ کے پیٹ کو بھی تلوار سے کاٹ دیا۔ اس کی آنتیں باہر آ گئیں اور وہ اپنی آنتوں کو ہاتھ میں لے کر بدحواس دوڑ پڑی۔اس حادثہ کے بعد اس نے گائوں ہی چھوڑ دیا۔بھورا کی بھانجی کے پیر میںگولی ماری گئی۔

بجلی کے سامان کی مرمت کرنے والے حشمت علی اپنے زخم دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ان کے گھر کی تلاشی لی تھی اور اس میںانہیں پیچ کس ملا ۔ اس پر انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی۔ وکیل احمد کے جسم پر بھی گولیوں کے نشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پیٹ پر دو گولیاں ماری گئیں، جس سے ان کی ایک کڈنی خراب ہو گئی۔ محمد رضا بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ایک گولی سے دو لوگوں کا قتل کیا۔نصیر احمد کے سر میں گولی ماری گئی ، جو ان کے پیچھے کھڑے ایک دوسرے آدمی کی گردن میں لگ  گئی اور دونوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔نوشاد بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ چھوٹے تھے۔ فسادیوں کا قہر دیکھ کر ان کا دل دہل اٹھا تھا۔ وہ دہشت آج بھی ان کے دل پر طاری ہے۔ آج بھی جب ان فسادات کا ذکر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہو۔

ہاشم پور ہ کی نسیم بانو کا کہنا ہے کہ ان کا ایک ہی بھائی تھا سراج احمد۔پی اے سی کے جوان اسے بھی اٹھا کر لے گئے اور گنگا نہر کے کنارے اسے گولی مار کر ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ گھر کے چشم و چراغ کی موت کے بعد ان کے والد شبیر احمد بری طرح ٹوٹ گئے اور اس کی والدہ کی دماغی حالت خراب ہو گئی۔ اس دلسوز حادثہ کے 10سال بعد ان کی موت ہو گئی، لیکن آخری سانس تک انھوں نے اپنے بیٹے کا انتظار کیا۔ انہیں اس بات پر کبھی یقین ہی نہیں آیا کہ اب ان کا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے۔ا ن کی دو بہنیں اپنی سسرال میں ہیں، جب کہ وہ اور ان کی ایک بہن فاطمہ طلاق شدہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بھائی کی موت نے پورے خاندان کو منتشر کر کے رکھ دیا۔ آج ان کا بھائی زندہ ہوتا تو ان کی زندگی ہی کچھ اور ہوتی۔ ہاجرہ کے بیٹے نعیم اور پیرو کے بیٹے نظام الدین کو بھی پی اے سی کے جوان اٹھا کر لے گئے تھے اور انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا۔زرینہ تو آج بھی اس خوفناک منظر کو یاد کرکے کانپ اٹھتی ہیں، جب پی اے سی اہلکار ان کے شوہر ظہیر احمد اور بیٹے جاوید اختر کو گھر سے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے، بعد میں دونوں کی موت کی خبر ہی ملی۔ امینہ کے شوہر زین الدین اور دو بیٹوں جمشید احمد اور شمشاد احمد کو بھی پی اے سی کے جوان جبراً گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ ان کے بیٹوں کو گولی مار کر نہر کے حوالہ کر دیا گیا اور شوہر کو جیل بھیج دیا گیا۔ سوا مہینہ بعد زین الدین گھر لوٹے تو ان کے زخم پولس کی حیوانیت کو بیان کر رہے تھے۔ان پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ ان کے ہاتھ پیر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گئے۔ اب وہ معذوروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ امینہ بھی بیٹوں کے غم میں اس قدر غمزدہ ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر چل تک نہیں پاتیں۔ رفیقن بتاتی ہیں کہ پی اے سی نے ان کے شوہر حطیم الدین کو بری طرح پیٹا اور بیٹے علاء الدین کو نہر کنارے لے جا کر گولی مار دی اور اس کی لاش بھی ندی میں پھینک دی۔

عورتیں ہی نہیں، بزرگ بھی اپنی اولادوں کو یاد کر کے خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ جمال الدین کے بیٹے قمر الدین کو بھی دو گولیاں ماری گئیں۔پہلے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر قینچیوں کا کارخانہ چلاتے تھے۔ ان کا بیٹا ہی نہیں، بلکہ کاروبار بھی فساد کی نذر ہو گئے۔ اب وہ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کے سہارے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہے ہیں۔ شاہد انصاری کے والد الٰہی انصاری بھی میرٹھ فسادات میں مارے گئے اور وہ یتیم ہو گئے۔ موت کے منھ سے بچ کر آئے ذوالفقار بتاتے ہیں کہ پی اے سی نے انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا، لیکن وہ کسی طرح بچ کر آ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے چنگل سے  بچے لوگوں کے ہاتھ پیڑ توڑ دیے گئے۔وہ کھانے کمانے کے لائق نہیں رہے۔ محمد یامین بتاتے ہیں کہ ان سے پی اے سی  کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو تو علاقہ کا نام بتاتے ہی انہیں لے جا کر جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔عبد الحمید کا سر بھی پھوڑ دیا گیا۔ان کے زخموں کے نشان آج بھی ان کے درد کو بیاں کر رہے ہیں۔ شکیل کا کہنا ہے کہ جب پی اے سی کے جوان اس کے بھائی نعیم کو اٹھا کر لے جا رہے تھے، تب وہ ان کے پیروں سے لپٹ گیا، لیکن ایک معصوم بچے کے آنسو بھی انہیں روک نہیں پائے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس حادثہ کے بعد علاقہ میں صرف عورتیں اور بچے ہی بچے تھے۔ کئی کئی دنوں تک انہیں روٹی کا ایک نوالہ تک نصیب نہیں ہوتا تھا۔ بچے اسی آس میں دن بھر سڑک کے چکر لگاتے تھے کہ کہیں سے کوئی گاڑی آئے اور انہیں راشن دے دے۔ انتظامیہ کی امداد بھی برائے نام تھی۔ کبھی کبھار ہی سرکاری نمائندے آتے اور انہیں دال چاول اور آٹا دے جاتے تھے۔ اس کے سہارے بھلا کتنے دن پیٹ بھر پاتا۔


 فردوس خان 
ہندوستان  کی کثیر آبادی کے درمیان ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جسے آزادی کے طویل عرصہ بعد بھی مجرموں کی طرح پولس تھانوں میں حاضری لگانی پڑتی تھی۔ آخر کار 31اگست، 1952کو اسے اس سے نجات تو مل گئی، لیکن اسے کوئی خاص توجہ حاصل نہیں ہوئی۔نتیجتاًاس کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اس سماج کے لوگوں کو ملال اس بات کا ہے کہ جہاں ملک کی دیگر برادریوں نے ترقی کی، وہیں وہ مسلسل پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ان کے پشتینی دھندے ختم ہوتے چلے گئے اور انہیں سرکاری سہولیات کا بھی مکمل فائدہ نہیں مل پایا۔ قابل غور ہے کہ ملک میں 15اگست بطور جشن آزادی منایا جاتا ہے، لیکن انہی خوشنما لمحوں کے درمیان سماج میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جو اس دن کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ گھومنتو برادری کے یہ لوگ 31اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں۔

آل انڈیا ومکت جاتی مورچہ کے ممبر بھولا کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم یوم آزادی نہیں مناتے، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے لئے15اگست کے بجائے 31اگست کی زیادہ اہمیت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15لوگوں کو دن میں تین بار پولس تھانہ میں حاضری لگانی پڑتی تھی۔ اگر کوئی شخص بیمار ہونے یا کسی دوسری وجہ سے تھانہ میں موجود نہیں ہوپاتا تو پولس کے ذریعہ اسے اذیتیں دی جاتیں۔ اتنا ہی نہیں، چوری یا کوئی دیگر مجرمانہ واردات پر بھی پولس کا قہر ان پر ٹوٹتاتھا۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ تک چلتا رہا۔ آخر کار عاجز آ کر تشدد کے شکار لوگوں نے اس انتظامی تسلط کے خلاف آواز بلند کی اور پھر شروع ہوا لوگوں میں بیداری لانے کا سلسلہ۔لوگوں کی جدوجہد رنگ لائی اور پھر سال 1952میں انگریزوں کے ذریعہ 1871میں بنائے گئے ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ اسی سال 31اگست کو گھومنتو برادری کے لوگوں کو تھانہ میں حاضری لگانے سے نجات ملی۔

اس وقت ملک میں ومکت برداری کے 192قبیلوں کے تقریباً20کروڑ لوگ ہیں۔ ہریانہ کی تقریباًساڑھے سات فیصد آبادی اسی برادری کی ہے۔ ان ومکت برداریوں میں سانسی، باوریا، بھاٹ، نٹ بھیڑ کٹ اور ککر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بھاٹ برداری سے تعلق رکھنے والے پربھو بتاتے ہیں کہ 31اگست کے دن قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق اجتماعی رقص کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین جمع ہو کر پکوان بناتی ہیں اور اس کے بعد اجتماعی عشائیہ ہوتا ہے۔ بچے بھی اپنے اپنے طریقوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ کئی قبیلوں میں پتنگ بازی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جیتنے والے لوگوں کو تقریب کی زینت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ انہیں مبارکباد کے ساتھ ساتھ انعام بھی دیتے ہیں۔ان برادریوں کے لوگوں کے اداروں میں31اگست کو یوم آزادی منایاجاتا ہے۔ ان پروگراموں میں مرکزی وزراء سے لے کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اور سرکاری افسران بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان کی تیاریوں کے لئے تنظیم کے عہدیداران گائوں گائوں کا دورہ کر کے لوگوں کو تقریب کے لئے مدعو کرتے ہیں۔


ہریانہ کے علاوہ ملک کی د یگر ریاستوں میں بھی قبائلی سماج کی دیگر برادریاں رہتی ہیں، جن میں آندھرا پردیش میں بھیلی، چینچو، گونڈ، کانڈا، لمباڈی، سنگلی اور نائک ۔ آسام میں بوشے، کچاری مکر یعنی کاربی، لنلگ، راتھا، دماسا، ہمر اور ہجونگ۔بہار اور جھارکھنڈ میں جھمور ،بنجارا، برہور، کوروا، منڈا، اورائو، سنتھال، گونڈ اور کھنڈیا۔ گجرات میں بھیل، ڈھوڈیا،گونڈ،سدی،بورڈیا اور بھیلالا۔ ہماچل پردیش میں گدی،لاہوآلا اور سوانگلا۔ کرناٹک میں بھیل،چینچو، گائوڈ ، کروبا، کمارا، کولی، کوتھا، میاکا اور ٹوڈا۔کیرل میں آدیم، کونڈکپو ،ملیس اور پلیار۔مدھیہ پردیش میں بھیل، برہور ، امر، گونڈ، کھریا،ماجھی، منڈا اور اورائوں۔ چھتیس گڑھ میں پرہی، بھیلالا،بھیلائت، پردھان، راجگونڈ، سہریا، کنور،بھینجوار ،بیگا، کول اور کورکو۔ مہاراشٹر میں بھیل،بھونجیا،ڈھوڈیا،گونڈ، کھریا، نائک،اورائوں،پردھی اور پتھنا۔ میگھالیہ میں گارو، کھاسی اور جینتیا۔اڑیسہ میں جوانگ، کھانڈ ،کرووا،منڈاری، اورائوں، سنتھال،دھاروآ اور نائک، راجستھان میں بھیل، دمور، گرستہ،مینا اور سلریا۔ تمل ناڈو میں ارولر، کمرار ، کونڈکپو،کوٹا، مہملاسر، پلین اور ٹوڈا۔ تریپورہ میں چکما ،گارو، کھاسی، کوکی، لوسائی،لیانگ اور سنتھال۔ مغربی بنگال میں اسور، برہور، کوروا، لیپچا، منڈا، سنتھال اور گونڈ۔ میزورم میںلوسئی،ککی، گارو، کھاسی، جینتیا اور مکٹ۔ گوا میں ٹوڈی اور نائک۔دمن و دیپ میں ڈھوڈی، مکڑ اور ورتی۔ انڈمان میں جاروا، نکوبارمیں،اونجے،سینٹی نیلج،شومپینس اور گریٹ انڈمانی۔ اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں بھاٹی، بکسا، جونساری اور تھارو۔ ناگالینڈ میں ناگا، ککی، مکٹ اور گارو۔ سکم میں بھوٹیا اور لیپچا۔ جموںو کشمیر میں چدمپا، گرا، گور اور گڈی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے دیگر برادریاں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
انڈین نیشنل لوک دل کے ٹپری واس ومکت جاتی مورچہ کے ضلع صدر بہادر سنگھ کا کہنا ہے کہ آزادی کی 6دہائیوںکے بعد بھی قبائلی سماج کی گھومنتو برادریاں ترقی سے کوسوں دور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان برادریوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں مقامی طور پر آباد کریں۔ ان کے لئے بستیاں بنائی جائیں اور مکان مہیا کرائے جائیں، بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور ایس ٹی کا درجہ دیا جائے، تاکہ انہیں بھی ریزرویشن کا فائدہ مل سکے۔ قبائلی سماج کی بیشتر برادریاں آج بھی بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وزارت دیہی ترقیات کے ایک سروے کے مطابق ان برادریوں کا نصف سے زیادہ حصہ خط افلاس سے نیچے پایا گیا ہے۔ ان کی فی کس آمدنی ملک میں سب سے نیچے رہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق،درج فہرست قبائل کی 9,17,590 ایکڑ زمین کا تبادلہ کیا گیا اور محض5,37,610ایکڑ زمین ہی انہیں واپس دلائی گئی۔

گھومنتو برادری کی بدحالی کے مختلف اسباب ہیں، جن میں جنگلوںکی تباہ کاری اہم طور پر شامل ہے۔ جنگل ان کی گزر بسر کا واحد وسیلہ ہے، لیکن ختم ہو رہے جنگلاتی وسائل ان کے ایک بڑے حصے کے وجود کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔ بیداری کا فقدان بھی ان برادریوں کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہواہے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ شروع کئے گئے ترقی سے متعلق مختلف پروگراموں، اسکیموں کے بارے میں گھومنتو برادری کے لوگوں کو جانکاری نہیں ہے، جس سے انہیں ان کا کوئی بھی فائدہ نہیں مل پاتا۔ پانچویں پنج سالہ اسکیم کے تحت ملک بھر میں درج فہرست قبائلیوں کی ترقی کے لئے ٹرائبل سب اسٹریٹجی (ٹی ایس پی) اسکیم بھی تیار کی گئی ہے۔اس کے تحت عموماً درج فہرست قبائلیوں سے بسے مکمل علاقہ کو ان کی آبادی کے حساب سے کئی زمروں میں شامل کیا گیا ہے۔ان زمروںمیں اٹرگریٹیڈ ایریا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (ٹی ڈی پی)،موڈیفائڈ ایریاڈیولپمنٹ ایپروچ (ماڈا)، کلسٹر اور آدم درج فہرست قبائل گروپ شامل ہیں۔ قبائلیوں کی وزارت کے دفتر نے درج فہرست قبائل کی فلاح اور ترقی کے لیے بنائی گئی اسکیموں پر عمل درآمد جاری رکھا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لاعلمی،بدعنوانی اور لال فیتا شاہی کے سبب مذکورہ برادریاں اسکیموں سے مستفید نہیں ہو پاتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بیداری مہم چلا کر ان برادریوں کی ترقی کے لئے کارگر اقدامات کیے جائیں، ورنہ حکومت کی فلاحی اسکیمیں کاغذوں پر ہی سمٹ کر رہ جائیں گی۔


 اپنے پیارے آقا حضرت محممد صللاہ علیہ وسلم کی شان میں کلام
...رحمتوں کی بارش 
میرے مولا
رحمتوں کی بارش کر ہمارے آقا
حضرت محممد صلللاہ علیہ وسلم پر
جب تک
کائنات روشن
رہے
آفتاب نکلتا رہے
شام ڈھلتی رہے
اور رات آتی جاتی رہے
میرے مولا
سلام نازل فرما
ہمارے نبی صلللاہ علیہ وسلم
اور آل نبی کی روحوں پر
ازل سے ابد تک
فردوس خان-


 فردو س خان
تعلیم مہذب سماج کی بنیاد ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم یافتہ قوموں نے ہمیشہ ترقی کی ہے۔ کسی بھی شخص کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں مختلف فرقے تعلیم کو اہمیت دے رہے ہیںوہیں مسلم سماج آج بھی اس معاملے میں بے حد پسماندہ ہے۔ہندوستان میں خاص کر خواتین کی حالت بے حد خراب ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے اعداد و شمار بھی اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دیگر فرقوں کے مقابلے مسلم خواتین اقتصادی، سماجی اور تعلیمی طور پر کافی پچھڑی ہوئی ہیں، لیکن خاص بات یہ ہے کہ تمام مشکلوں کے باوجود مسلم خواتین مختلف میدانوں میں کامیابی درج کر رہی ہیں۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میںمسلم خواتین کی خواندگی شرح53.7فیصد ہے۔ان میں سے بیشتر خواتین صرف حرف شناشی تک ہی محدود ہیں۔7سے 16برس کی عمر کی اسکول جانے والی لڑکیوں کی شرح صرف 3.11فیصد ہے۔شہری علاقوں میں 4.3فیصد اور دیہی علاقوں میں2.26فیصد لڑکیاں ہی اسکول جاتی ہیں۔

سال2001میں شہری علاقوں میں70.9فیصد لڑکیاں ابتدائی سطح تک ہی تعلیم حاصل کر پائیں، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح47.8فیصد ہے۔سال1948میں یہ شرح بالترتیب 13.9اور4.0فیصد تھی۔سال2001میںآٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے والی شہری علاقوں کی لڑکیوں کی شرح 51.1فیصد اور دیہی علاقوں میں 29.4فیصد ہے۔سال1948میں شہری علاقوں میں5.2فیصد اور دیہی علاقوں میں 0.9فیصد لڑکیاں ہی مڈل سطح تک تعلیم حاصل کر پائی تھیں۔ سال2001میں میٹرک سطح تک تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی شرح شہری علاقوں میں32.2فیصد اور دیہی علاقوں میں 11.2فیصد ہے۔سال1948میں یہ شرح بالترتیب 3.2اور 0.4 فیصد تھی۔

تعلیم کی ہی طرح خود مختاری کے معاملے میںبھی مسلم خواتین کی حالت تشویشناک ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 15سے64سال کی ہندو خواتین(46.1) فیصد کے مقابلے صرف25.2فیصد خواتین ہی بر سر روزگار ہیں۔ بیشتر مسلم خواتین کو پیسوں کے لیے اپنے کنبے کے لوگوں پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے، جس کے سبب وہ اپنی مرضی سے اپنے اوپر ایک بھی پیسہ خرچ نہیں کر پاتیں۔یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ مسلم خواتین کی بدحالی کے لیے ’’مذہبی وجوہات‘‘ کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ان میں برقعہ کا چلن، کئی بیویوں کا رواج اور طلاق کے معاملے اہم طور پر شامل ہیں۔ لڑکوں کی تعلیم کے بارے میں مسلم والدین کی دلیل ہوتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے کون سی انہیں سرکاری نوکری مل جائے گی۔پھر پڑھائی پر کیوں پیسہ برباد کیا جائے؟بچوں کو کسی کام میں ڈال دو، سیکھ لیں گے تو زندگی میں کما کھا لیں گے۔وہیں لڑکیوں کے معاملے میں والدین کہتے ہیںکہ سسرال میں جاکر چولہا چوکا ہی تو سنبھالنا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ لڑکیاں سلائی کڑھائی اور گھر کا کام کاج سیکھ لیں۔سسرال میں جاکریہ تو سننا نہیں پڑے گا کہ ماں نے کچھ سکھایا نہیں۔

مرادآباد کی رہنے والی50سال کی کامنی صدیقی بتاتی ہیں کہ وہ پڑھنا چاہتی تھیں، لیکن گھر والوں نے ان کی پڑھائی درمیان میں ہی روک دی۔وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھیں، تبھی ان کو پردے میں رہنے کے لیے کہہ دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ صرف گھر کے کام کاج سیکھ لیں۔ سسرال میں یہی سب کام آئے گا۔پڑھ لکھ کر کون سی نوکری کرنی ہے۔انہیں اس بات کا ملال ہے کہ پڑھ نہیں پائیں، لیکن وہ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی ہیں۔ان کی چار بیٹیاں ہیں اور چاروں پڑھ رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ سب نہیں ہونے دیں گی جو ان کے ساتھ ہوا۔ شبانہ اور نشاط نے پچھلے سال ہی دسویں کا امتحان پاس کیا ہے، وہ بتاتی ہیں کہ غریبی کی وجہ سے ان کے والدین انہیں تعلیم دلانے میںنا اہل تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی ماں کے ساتھ بیڑیاں بنا کر اپنی پڑھائی کے لیے پیسے اکٹھا کیے۔ان کا کہنا ہے کہ سبھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے، کیونکہ تعلیم زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ اب وہ بیوٹیشین کا کورس کرکے اپنا بیوٹی پارلر کھولنا چاہتی ہیں۔ راج مستری کا کام کرنے والے علی محمد نے اپنی چاروں بیٹیوں کو تعلیم دی ہے، ان کی دو بیٹیاں دسویں پاس ہیں اور دو نے بی اے تک پڑھائی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ والدین اپنی بیٹیوں کے لیے جہیز اکٹھا کرتے ہیں، لیکن ہم نے ایسا نہ کرکے ان کی تعلیم پر پیسہ خرچ کیا۔تعلیم ہی میری بیٹیوں کا زیور ہے، جو ساری عمر ان کے کام آئے گا۔چاروں بہنیں گھر پر زردوزی کا کام بھی کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ پہلے بچولئے سے کام لیا کرتی تھیں مگر اب وہ دوکانداروں سے براہ راست رابطہ کرتی ہیںجس سے انہیں پہلے سے زیادہ منافع ہوتا ہے، کیونکہ بچولیا انہیں بہت کم پیسہ دیتا تھا۔

حالانکہ اسلام میں تعلیم کو بہت اہم مانا گیا ہے۔اس کے باوجود مسلم سماج کے رہنمائوں نے تعلیم پر کوئی خاص زور نہیں دیا، جس کے سبب مسلم سماج پچھڑتا چلا گیا۔مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بھی ایک فتویٰ جاری کرکے کہا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے۔چاہے وہ مرد ہو یا خاتون۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے کنبے کو مہذب بنا سکتی ہے۔اولاد کی بہتر پرورش کے لیے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ نا خواندگی ہے۔ایک حدیث میں بھی کہا گیا ہے کہ ایک مرد نے پڑھا تو سمجھو ایک فرد نے پڑھا اور اگر ایک خاتون نے پڑھا تو سمجھو ایک پریوار ، ایک خاندان نے پڑھا۔فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اولاد تو اولاد نوکرانیوں کو بھی پڑھانے پر زور دیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم لڑکیوں کو دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے وہ اپنے حقوق کے تئیں بیدار نہ ہو سکیں۔حضرت محمدﷺ کے دور میں خواتین مساجد میں جاکر نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ بے شمار جنگوں میںخواتین نے اپنی جنگی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔جنگ احد میں جب حضرت محمدﷺ زخمی ہو گئے تو ان کی بیٹی فاطمہؓ نے ان کا علاج کیا۔اس دور میں بھی رفائدہ اور میمونہ نام کی مشہور خاتون معالج تھیں۔رفائدہ کا تو میدان نبوی میں اسپتال بھی تھا، جہاں سنگین حالت میں مریضوں کو  داخل کیا جاتا تھا۔ مسلم خواتین سرجری بھی کرتی تھیں۔ام زیاد، شاذیہ، بنت مائوز، معازت الاپگریا، عطیہ اسریا اورسلیم انصاریہ وغیرہ اس زمانے کی مقبول سرجن تھیں۔ میدان جنگ میں خواتین ڈاکٹر بھی مردوں کے جیسا ہی لباس پہنتی تھیں۔خاتون عالمہ رابعہ بصری کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔مرد عالموں کی طرح وہ بھی مذہبی اجلاس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔سیاست میں بھی خواتین نے ناقابل فراموش کام کئے۔ رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون حکمراں بنیں۔ نور جہاں بھی اپنے وقت کی مقبول سیاست داں رہیں، جو حکومت کا بیشتر کام کاج دیکھتی تھیں۔1857کی جنگ آزادی میں کانپور کی ہر دلعزیز رقاصہ عزیزن بائی سارے عیش و آرام ٹھکرا کر ملک کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانے کے لیے جنگ آزادی میں کود پڑیں۔انھوں نے خواتین کے گروپ بنائے جو مردانہ لباس میں رہتی تھیں۔وہ سبھی گھوڑوں پر سوار ہو کر اور ہاتھ میں تلوار لیکر نوجوانوں کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کے لیے راغب کرتی تھیں۔اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیوی بیگم حضرت محل نے ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے قابل ذکر کام کیے۔

موجودہ دور میں بھی مختلف میدانوں میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دے رہی ہیں۔ترکی جیسے جدید ترین ملک میں نہیںبلکہ انتہاپسند سمجھے جانے والے پاکستان اور بنگلہ دیش میں خواتین کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا ہے۔واقعی یہ ایک خوشنما احساس ہے کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کی تمام بندشوں کے باوجود مسلم خواتین آج سیاست کے ساتھ کھیل، تجارت، صنعت ، آرٹ، ادب، دفاع اور دیگر سماجی میدانوں میں بھی اہم رول ادا کر رہی ہیں۔جموں و کشمیر کے کلالی-ہلکاک علاقے کی منیرابیگم نے دہشت گردوں کامقابلہ کرنے کے لیے بندوق اٹھا لی۔انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سورن کوٹ کے گائوں کی دیگر خواتین نے بھی ہتھیار اٹھا کر دہشت گردو ںسے اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرنے کا عہد لیا۔جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کے کالسی گائوں کی رخسانہ کوثر نے دہشت گردو ںکو مار کر یہ پیغام دیا کہ ملک میں بہادر خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے۔مغربی بنگال کے نندی گرام کی شبانہ آرا نے تمام رکاوٹوں کو پار کرکے قاضی کا عہدہ سنبھالا۔کیرل کے ناویکلم کی شازینہ نے کیرل یونیورسٹی سے سنسکرت میںایم اے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔مغربی بنگال کی پپیا سلطانہ وہاں کی پہلی خاتون ریاستی پولس افسر بنیں۔ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرکے پپیا نے ریاستی پولس سروس کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب اپنی ماں سلمیٰ سے ملی ، جو مدرسے میں استانی ہیں۔پپیا کا ماننا ہے کہ ان کے والدین روشن خیال ہیں اور انہی کے تعائون سے آج وہ اس مقام تک پہنچ پائی ہیں۔

یہ ایک خوشنما احساس ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میںاسکولوں میں داخلہ لینے والے مسلم بچوں خاص کر لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔نیشنل یونیورسٹی آف پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ابتدائی سطح یعنی پانچویں تک کے درجات میں 1.438کروڑمسلم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔یہ تعداد ابتدائی سطح کے درجات میں داخلہ لینے والے کل13.438کروڑ بچوں کا11.03فیصد ہے۔ سال 2007-08میں یہ شرح 10.49فیصد تھی۔جبکہ2006-07میں یہ تعداد کل داخل بچوں کا9.39فیصد تھی۔ان درجات میں پڑھ رہے کل مسلم طلبا میں48.93فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔سینئر سیکنڈری اسکولوں میں بھی مسلم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔یہ تعداد کل داخلے کی 9.13فیصد ہے۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ سینئر سکینڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد مسلم طلبا کی تعداد کا50.03فیصد ہے، جبکہ سبھی فرقے کی لڑکیوں کا سینئر سکینڈری اسکولوںں میںکل داخلہ محض47.58فیصد ہے۔یہ رپورٹ ملک کی35ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے633اضلاع کے 12.9 لاکھ تسلیم شدہ اسکولوں سے اکٹھا کی گئی جانکاری پر مبنی ہے۔یہ اعداد و شمار مسلم سماج میں تبدیلی کی علامات ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے مسلم سماج میں بھی تعلیم کی قدر ہونے لگی ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا وقت مسلم خواتین کے لیے تعلیم کی روشنی سے جگمگاتی صبح لیکر آئے گا۔


 میرے مولا
مجھے تیری دوزخ کا خوف نہیں
اور نہ ہی
تیری جنت کی کوئی خواہش ہے
میں صرف تیری عبادت ہی نہیں کرتی
تجھ سے محبت بھی کرتی ہوں
مجھے فردوس نہیں، مالک-فردوس چاہئے
چونکہ
میرے لئے تو ہی کافی ہے
...اللہ تو ہی تو
فردوس خان-


 میرے مولا
 
! میرے مولا
پہلے زباں پر
کلمے ​​کی طرح
...اس کا نام رہتا تھا
لیکن
اب شامو-سحر زباں پر
صرف اور صرف
 ...کلمہ ہی رہتا ہے.
وہ اشقے-مجازی تھا
اور
...یہ اشقے-حقیقی ہے 
فردوس خان-


 ! میرے مولا
میرا ایک سجدہ
تو ایسا ہو
...جو تجھے پسند آ جائے 
فردوس خان-

 


 



فردوس خان
گزشتہ سال دہلی میں اجتماعی عصمت دری کے واقعہ کے بعد ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی آواز پھر سے بلند ہونے لگی ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد، عورت کو ہمیشہ دوسرے درجے اور حاشیے پر رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے آج تک خواتین ریزرویشن بل پاس نہیں ہو پایا ہے۔ دراصل اس بل کی راہ میں مرد کی وہی ذہنیت حائل ہے، جو عورتوں کو صرف گھر کی چہار دیواری میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ آخر کیوں ہے مردممبران پارلیمنٹ کو اعتراض؟ پڑھئے چوتھی دنیا کی یہ خصوصی رپورٹ۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے تمام دعووں کے باوجود خواتین ریزرویشن بل گزشتہ ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ مدت سے لوک سبھا میں زیر التوا ہے، کیونکہ زیادہ تر مرد ممبران پارلیمنٹ نہیں چاہتے کہ خواتین سیاست میں آئیں۔ انھیں ڈرہے کہ اگر ان کی سیٹ خاتون کے لئے ریزرو ہو گئی تواس صورت میں وہ الیکشن کہاں سے لڑیں گے۔ دراصل، کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ اپنا انتخابی حلقہ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ حالانکہ خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کے نام پر اپنا مفاد ثابت کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لئے انھوں نے بہانہ بھی تلاش کر لیا ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ دلتوں ، پسماندوں، اقلیتوں اور غریب خواتین کے حق کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں الیکشن کے دوران ٹکٹ کے بٹوارے میں پیسہ ، اثرو رسوخ اور اقرباپروری کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ وہ جن عورتوں کو اپنی ا میدوار بناتی ہیں، ان میں سے زیادہ ترعورتیں سیاسی پریواروں سے ہی ہوتی ہیں۔ ایسے میں دلت، پسماندہ، اقلیت اور غریب خواتین حاشیے پر چلی جاتی ہیں۔ کچھ پارٹیوں کو یہ بھی فکر ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جیتنے والی خاتون امیدوار کہاں سے لائیں گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امیدوار نہ ملنے پر سیاستداں اپنے خاندان اور رشتے داروں کی خواتین کو ہی انتخابی میدان میں اتارتے ہیں۔

لوک سبھا میں حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج خواتین ریزرویشن بل کو لے کر فکر مند دکھائی دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا آج وقت کی مانگ ہے، اس لئے خواتین ریزرویشن بل منظور ہونا چاہئے۔ وہ کہتی ہیں کہ بی جے پی ہمیشہ اس بل کی حمایت میں رہی ہے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے سرکارکے دوران پارٹی نے اسے منظور کرانے کی پوری طرح کوشش کی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت دیگر پارٹیوں سے حمایت حاصل نہیں ہو پائی۔

دراصل ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کو ریزرویشن دینے والے بل کو لیکر سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ جہاں ایک طرف برسر اقتدار کانگریس سمیت بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتیںبل کی حمایت کر رہی ہیں، وہیں راشٹریہ جنتادل، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی نے اس بل کی موجودہ شکل کی اس لئے مخالفت کی ہے کیونکہ وہ سماج کے پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن میں ریزرویشن چاہتی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس بل کوراجیہ سبھا کی منظوری ملنے کے باوجود کارروائی آگے نہیں بڑھ پائی ہے۔ یہ بل لوک سبھا میں زیر التوا ہے۔ حالانکہ ایک بار پھر بین الا قوامی یوم خواتین کے موقع پر راجیہ سبھا کے ممبران نے اتفاق رائے سے خواتین ریزرویشن بل کو پاس کرنے کی اپیل کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن بل کئی بار پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ یہ بل سب سے پہلے ایچ ڈی دیوگوڑا کی وزارت عظمیٰ کی مدت کار میں 1996میں لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر کافی ہنگامہ ہوا۔ پھر 1998میں جب اس وقت کے وزیر قانون تمبی درے بل پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کے ہاتھ سے بل کی کاپی لیکر پھاڑ دی گئی۔ اس کے بعد 6مئی 2008کو اسے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا، جہاں اسے لیگل سسٹم اور پرسنل میٹر کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو سونپا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کے باوجود پارلیمانی کمیٹی نے اسے اصل شکل میں ہی پاس کرانے کی سفارش کی۔ اس بل کے معاملے میں مرکزی سرکار کو 9 مارچ 2010کو اس وقت ایک بڑی کامیابی ملی، جب اس کے لئے لائے گئے108ویںآئین ترمیم بل کو راجیہ سبھا کی منظوری مل گئی۔

سیاست میں خواتین کو مناسب نمائندگی دلانے کے لئے خواتین ریزرویشن بل کا پاس ہونا بے حد ضروری ہے۔ خواتین ریزرویشن بل میں لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے 33فی صد سیٹیں ریزرو کرنے کا اہتمام ہے۔ خواتین ریزرویشن نافذ ہونے کے 15 سال بعد یہ ریزرویشن ختم ہو جائے گااور اسے آگے جاری رکھنے کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔ دنیا کے تقریباً سو ممالک میں خواتین کوسیاست میںمناسب نمائندگی دینے کے لئے ریزرویشن کا قانون ہے۔ ریزرویشن کا فیصد سبھی ممالک میں الگ الگ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایشیائی ملکوں میں خواتین کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ ان ملکوں کا اوسط تناسب18.5فیصد ہے، جو کہ کافی کم ہے۔ اس معاملے میں سری لنکا کی حالت بیحد خراب ہے، وہاں یہ شرح محض 6فیصد ہے۔ مغربی ممالک کی خواتین سیاست میں بہت آگے ہیں۔ روانڈا کی پارلیمنٹ میں 56فیصدخواتین ہیں۔ یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد سویڈن کا نام آتا ہے، جہاں یہ شرح 47فیصد ہے۔ جنوبی افریقہ میں 45فیصد، آئس لینڈ میں43فیصد، ارجنٹنا میں 42فیصد، نیدر لینڈمیں41فیصد، ناروے اور سینیگل میں40فیصد، ڈنمارک میں38 فیصد، انگولا اور کوسٹاریکا میں37فیصدخواتین پارلیمنٹ میں ہیں۔ ہندوستان میں یہ شرح محض 11فیصد ہی ہے۔ حالانکہ 1995سے 2012کے درمیان سیاست میں خواتین کی تعداد 75فیصد بڑھی ہے، لیکن ہندوستان میں حالت اچھی نہیں ہے۔ 1991سے 2012کے درمیان خاتون نمائندوں کی تعداد 9.7فیصد سے 10.96فیصد ہی بڑھی ہے۔ 1957 میں لوک سبھا میں)22 48.9فیصد)خواتین جیت کر آئی تھیں۔ 1962میں47)31 فیصد)، 1967میں29(43.3فیصد)، 1971میں21 24.4) فیصد)، 1977میں19(27.1 فیصد)، 1980میں 28 (19.6فیصد )، 1984میں 42(25.2فیصد )، 1989میں 29(14.7فیصد )، 1991میں37(11.4فصد )، 1996میں 40(6.7فیصد)، 1998میں 43(15.7فیصد )، 1999میں 49(17.3فیصد)، 2004میں 45(12.7فیصد )اور 2009میں 49 (10.6فیصد ) خواتین لوک سبھا کی ممبر بنیں۔

خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت کے لئے سیاستداں طرح طرح کی دلیلیں دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس بل سے غریب اور دیہات میں رہنے والی خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ جنتادل (یونائٹیڈ) کے صدر شرد یادو نے بل کے ضابطوں پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ اس بل سے صرف پَر کَٹی عورتوں کو فائدہ پہنچے گا، جبکہ سماجوادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ اگر مرکز ی سرکار خواتین ریزرویشن بل میں ترمیم کرکے دلت، پسماندہ طبقہ اور مسلم سماج کی خواتین کے لئے ریزرویشن کی بات کرے، تو ان کی پارٹی اسے حمایت دینے پر غور کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی ، خواتین ریزرویشن کے خلاف نہیں ہے، لیکن یہ بل اگر موجودہ شکل میں پاس ہوتا ہے، تو ٖغریب اور دیہاتی خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لئے ان کی پارٹی یہ چاہتی ہے کہ خواتین ریزرویشن بل میں دلت، پسماند ہ طبقے اور مسلم سماج کی خواتین کے لئے ریزرویشن کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح راشٹریہ جنتادل کے صدر لالو یادو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ریزرویشن کے خلاف نہیں ہے، لیکن وہ چاہتے ہیںکہ اس بل میں پچھڑی، دلت اور مسلم خواتین کو ریزرویشن ملے۔ سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی بھی اپنے شوہر کی طرز پر خواتین ریزرویشن کے کوٹے کے اندر کوٹے کا مطالبہ کر تی ہیں، یعنی وہ درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقے کی خواتین کو بھی ریزرویشن میں شامل کرنے کی بات کہتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی مخالفت کی حالت یہ ہے کہ مارچ 2010میں جب بھاری ہنگامے اور شور شرابے کے درمیان سرکار کی طرف سے اس وقت کے وزیر قانون ویرپا موئلی نے جیسے ہی ایوان میںخواتین ریزرویشن بل رکھا، تبھی بل کی مخالفت کر رہے جنتادل(آر جے ڈی ) اور سماجوادی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ چیئر مین حامد انصاری کی نشست تک پہنچ گئے۔ آر جے ڈی کے ممبر پارلیمنٹ سبھاش یادو، راجنیتی سنگھ اور سماجوادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ کمال اختر نے حامد انصاری سے چھینا جھپٹی کرتے ہوئے، بل کی کاپیاں چھین لیں اور انھیں پھاڑکر ایوان میں لہرادیا۔ یہ مخالفت یہیں تک ہی محدود نہیںرہی، بلکہ ملائم سنگھ یادو اور لا لو پرساد یادو نے یو پی اے سرکار سے حمایت واپس لینے کا اعلان تک کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس بل کے پاس نہ ہونے کے پس پردہ مردکی مردانہ ذہنیت کام کر رہی ہے، کیونکہ جب سے انسان نے روئے زمین پر قدم رکھا ہے، تبھی سے انسانی سماج دو گروپوں میں منقسم رہا ہے۔ پہلا گروپ مردوں کا ہے اور دوسرا عورتوں کا۔ چونکہ عورتیں جسمانی طور پر مردوں کے مقابلے کمزور ہوتی ہیں، اس لئے مردسماج نے عورت کو دوسرے درجے پر رکھا۔ عورتوں کے ساتھ شروع سے ہی امتیاز برتا جاتارہا ہے۔چاہے معاملہ مذہب کا ہو، سیاست کا ہو یا پھر کسی اور شعبے کا، ہر جگہ عورت کو کمتر تصور کیا گیا۔ ملک کی جنگ ِ آزادی کے دوران بابائے قوم مہاتما گاندھی نے خواتین کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گھر کی چہار دیواری سے باہر آکر انگریزوں سے لوہا لیں۔ انھوں نے عورتوں کو جھانسی کی رانی کی مثال دی، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور میدانِ جنگ میں فرنگیوں کو بتادیاکہ ہندوستان کی عورتیں صرف چوڑیاں ہی نہیں پہنتی ہیں، بلکہ وقت آنے پر تلوار بھی اٹھا لیتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر عورتوں نے ملک کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آزادی کے بعد عورتیںسیاست میں بھی آئیں، لیکن ان کی تعداد محض برائے نام رہی۔ عورتوں کو سیاست میں مناسب مقام دینے کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں 1993میں 73ویں 74ویں آئینی ترمیم کی گئی۔ اس کے تحت میونسپل کارپوریشن اور پنچایتوں کو آئینی درجہ دینے کے ساتھ ہی ان میں عورتوں کے لئے 33فیصد ریزرویشن دینے کاجواز ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ آئین میں لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لئے، ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق ریزرویشن کا بندوبست ہے، لیکن ان میں عورتوں کے لئے مقام محفوظ کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے اور اسی سبب اس سہولت کا فائدہ صرف مرد ہی اٹھا رہے ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایا وتی خود عورت ہوتے ہوئے بھی اس بل کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حالانکہ انھوں نے مجوزہ بل میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی عورتوں کی ہر شعبے میں بھر پور حصہ داری کے لئے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے مجوزہ 33فیصد ریزرویشن میں سے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی عورتوں کے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس بابت انھوں نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ ملک میں سبھی طبقوں کی عورتیں خاص طور سے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی عورتیں مالی ، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پچھڑی ہوئی ہیں اور یہ عورتیں میدانِ سیاست میں تو اور بھی پچھڑی ہوئی ہیں۔ سیاست میں عورتوں کو نمائندگی دلانے کا مطالبہ پچھلے کافی عرصے سے ہو رہا ہے۔ 1974میں عورتوں کی صورتحال کے لئے تشکیل کی گئی ایک کمیٹی نے سیاسی اداروں میں ان کے لئے جگہ محفوظ کرنے کی سفارش کی تھی۔ اسی طرح 1988میں نیشنل پرسپیکٹو پلان میں پنچایتوں، شہری اداروں اور سیاسی جماعتوں میں عورتوں کے لئے 30فیصد ریزرویشن کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2001میں خواتین کو بااختیار بنانے کی قومی حکمت عملی کے تحت لوک سبھا اور اسمبلیوں میں عورتوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی گئی۔

خواتین کے ریزرویشن کو لے کر سیاست بھی خوب جم کو ہوتی رہی ہے۔ یو پی اے نے پچھلے چناؤ میں خواتین کے ریزرویشن کو اپنے منشور میں شامل کرتے ہوئے عورتوں کے استحکام کے تئیں اپنے عزم کو دہرایا۔ یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ خواتین ریزرویشن بل پاس ہو جاتا ہے تو سمجھئے راجیو گاندھی کا عورتوں کے سیاسی استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا۔ کانگریسی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر امبیکا سونی کہتی ہیں کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوںمیں عورتوں کے لئے ریزرویشن بیحد ضروری ہے۔

دراصل اس خواتین ریزرویشن بل کی شروع سے ہی مخالفت کی گئی۔ حالانکہ برسر اقتدار کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ہی دیگر علاقائی پارٹیاں جیسے تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) ، دروڑ مُنیتر کشگم(ڈی ایم کے) ، آل انڈیا دروڑ منیتر کشگم(اے آئی ڈی ایم کے)، اکالی دل اور نیشل کانفرنس اس کی حمایت کر رہی ہیں، لیکن کانگریس اور بی جے پی کے ممبروں میں اس مدعے پر عام رائے نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کے اعلیٰ لیڈر یہ جانتے ہیں کہ ان کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ خواتین ریزرویشن بل کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راجیہ سبھا میں دونوں پارٹیوںکو وہپ جاری کرکے اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ووٹ دینے کے لئے مجبور کرنا پڑا۔ واضح ہو کہ وہپ تبھی جاری کیا جاتا ہے، جب ممبران پارلیمنٹ یا ممبران اسمبلی کے پارٹی کے خلاف جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی ہی ایسی ہے، جس کی اس بل کو پوری طرح سے حمایت حاصل ہے، کیونکہ کمیونسٹ ممبران پارلیمنٹ ، پارٹی کی آئیڈیالوجی پرہی چلنے میں یقین رکھتے ہیں۔ مارکسوادی لیڈر ورندا کرات خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس کے پاس ہونے سے ملک کی جمہوریت اور مضبوط ہوگی۔

بہر حال جس طرح بڑی سیاسی جماعتیں بل کی موجودہ شکل کی مخالفت کر رہی ہیں، اس کے مدنظر لوک سبھا میں اس کا پاس ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں دلتوں،پچھڑوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تئیں اتنی ہی سنجیدہ ہیں، تو انھیں اس بل کو پاس کرانا چاہئے۔ اس کے بعد وہ اپنی سطح پر ان طبقوں کو ٹکٹ دے کر سیاست میں آگے لاسکتے ہیں۔ مگر یہ جماعتیں ایسا نہیں کریں گی، کیونکہ ان کا اصل مقصد ان طبقوں کی فلاح و بہبود نہیں، بلکہ عورتوں کو آگے آنے سے روکنا ہے۔


 فردوس خان 
ایک نئی پارٹی بنی ہے۔ اس پارٹی کی افتتاحی تقریب میں ایک عیسائی پادری نے گائتری منتر پڑھا تو تعجب ہوا، کیوں کہ اس پارٹی کیبنیاد میں جماعت اسلامی ہے، جس کے بارے میں لوگ یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک کٹر مسلم تنظیم ہے۔ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں سوچتی ہے، صرف نعرے ہی دیتی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں موقع پرستی کے درمیان یہ مسلمانوں کی ضرورت بن گئی تھی کہ ایک ایسی سیاسی جماعت ہو جو مسلمانوں کے درد سمجھے، ان کے چیلنجز کو جانے، مسلم نوجوانوں کے روزگار کے لیے لڑے، ان کے سوالوں کو پارلیمنٹ میں اٹھائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی کی ویلفیئر پارٹی مسلمانوں کی اس ضرورت کو پورا کرپائے گی؟

جمہوریت کے پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتوں کا سب سے اہم رول ہ
وتا ہے۔ ملک میں تقریباً 1200 سیاسی جماعتیں ہیں، ان میں سے 6 نیشنل پارٹی، 44 صوبائی پارٹی اور 1152 مقامی پارٹیاں ہیں۔ حال ہی میں بابا رام دیو نے بھی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں ایک اور پارٹی نے جنم لیا ہے۔ یہ پارٹی اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیوںکہ یہ ملک کی مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند کی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس پارٹی کا نام ’’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘‘رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟ اس پارٹی کی آئیڈیالوجی کیا ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی پارٹی ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی؟ کیا یہ انتخاب لڑے گی؟ کن کن پارٹیوں سے یہ اتحاد قائم کرسکتی ہے؟ اس پارٹی کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ویژن کیا ہیں؟ اس پارٹی سے کن پارٹیوں کو فائدہ ہوگا اور کن پارٹیوں کو نقصان ہوگا؟ ایسے کئی سوال ہیں، جن کے بارے میں ملک کے عوام اور خاص طور سے مسلمانوں کو جاننا ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کا قیام 26 اگست 1941کو لاہور میں ہوا تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی بھی تقسیم ہوگئی۔ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش میںبھی جماعت اسلامی ہے۔ سیاست میں حصہ بھی لیتی ہے۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی پر حکومت نے دو بار پابندی لگائی ہے۔ پہلی بار ایمرجنسی کے دوران اور دوسری بار 1992 میں۔ پہلی بار ایمرجنسی کے ختم ہوتے ہی پابندی ہٹ گئی اور دوسری بار سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹائی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی، سیکولر اور مذہبی تنظیم ہے۔ ملک میں جماعت اسلامی کے لاکھوں حامی ہیں۔ اس کے 10 لاکھ سے زیادہ ممبران ہیں۔ مانا یہ جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے ممبران کافی اصول پسند اور ایماندار ہیں۔ یہ ملک میں فلاح و بہبود کی کئی اسکیمیں چلاتی ہے۔ جماعت اسلامی کا خواتین مورچہ بھی ہے، جو آندھراپردیش اور کیرالہ میں کافی سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی کی ایک برانچ ہے ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ ،جو کئی این جی او کے بیچ کوآرڈینیٹ کرتی ہے۔ جماعت سے وابستہ این جی او، سماجی فلاح اور انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا اس کی اسٹوڈنٹ ونگ ہے،یوں تو یہ پورے ملک میں ہے لیکن آندھراپردیش اور کیرالہ میں زیادہ سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ نئی پارٹی کے اعلان کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پارٹی کی آئیڈیا لوجی کیا ہے؟ کیا یہ صرف مسلمانوں کے مسائل کو اٹھائے گی یا پھر مسلمانوں کو قومی ایشو سے جوڑے گی؟ جماعت اسلامی کی آئیڈیالوجی کے لیے اس کے 2006 کے دستاویز ویژن 2016 کا جاننا ضروری ہے۔ جماعت نے 550 کروڑ روپے کے بجٹ سے غریب مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور گھر کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کیا تھا۔ اس پلان کے تحت 58 پسماندہ اضلاع کو منتخب کیا گیا۔ ان اضلاع میں اسکول، ہاسپیٹل، ووکیشنل ٹریننگ سینٹر، اسمال اسکیل انڈسٹری اورسستے مکانوں کے لیے قرض دینے کی سہولت ہے۔ جماعت اسلامی کی آئیڈیا لوجی بازاری پن، گلوبلائزیشن اور لبرل ازم کے خلاف ہے۔ یہ غیرملکی سرمایہ، سیج، صحت، تعلیم اور دوسری خدمات، زراعت میں سبسڈی کے ختم کیے جانے کی سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ جماعت کا ماننا ہے کہ ملک کے لوگوں کو ہر قسم کی سہولت دینا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی ہر قسم کی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کی خارجہ پالیسی امریکہ مخالف ہے۔ جماعت اسلامی الیکشن میں سرگرم کردار ادا کرتی ہے۔ الگ الگ صوبوں میں یہ الیکشن کے دوران حکمت عملی بناتی ہے۔ کس پارٹی کو حمایت دینی ہے، یہ جماعت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ اس بار کے اسمبلی انتخابات میں کیرالہ میںماکپاکے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کو جماعت کی کھلی حمایت ملی ہے۔ جماعت اب تک کے انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کوحمایت دیتی رہی ہے۔ جب کہ اس پر بی جے پی کو حمایت دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کا سیاسی رشتہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے یہ ایک پریشر گروپ کی طرح کام کرتی تھی، اب سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے الیکشن نہیں لڑتی تھی، اب الیکشن لڑ ے گی تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جماعت اسلامی کے لیڈران کو الیکشن لڑنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سوال پرجماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ آزاد ملک میں مسلمان خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان کی کبھی خیر خبر نہیں لی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی بنے جو مسلمانوں کے لیے ایمانداری سے کام کرے۔ جماعت کے سینئررکن ا ور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر مجتبیٰ فاروق کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بدتر حالت کو دیکھتے ہوئے جماعت کو پہلے ہی اپنی سیاسی پارٹی بنالینی چاہیے تھی۔ نئی پارٹی کا مقصد مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے اقتدار میں حصہ داری کو یقینی بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹیوں کی قطار سے منسلک ہونے کے لیے سیاست میں نہیں آرہے ہیں۔ ہمارا مقصد ملک کے عوام کو ایک نیا متبادل مہیا کرانا ہے۔ یہ پارٹی سب کی ہے۔ ہم سبھی کی آواز بننا چاہتے ہیں۔ ویلفیئر پارٹی کی ایگزیکٹیو میں فی الحال 31 ممبران ہوںگے۔ الیاس اعظمی، فادر ابراہیم جوزف، مولانا عبدالوہاب خلجی، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اورللیتا نائر کو نائب صدر بنایا گیا ہے۔ سید قاسم رسول الیاس، سہیل احمد، پروفیسر رما پانچل، خالدہ پروین اور پی سی حمزہ کو پارٹی کا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر رما سوریہ راؤ، اخترحسین اختر، عامر رشید اور پروفیسر سبرامنیم پارٹی کے سکریٹری ہوںگے۔ عبدالسلام اصلاحی کو خازن بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ ایک فرقہ پرست پارٹی ہے۔ کشمیر کی علیحدگی پسند پارٹیوں کے بارے میں بھی ان کا یہی جواب رہا، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔ جموں و کشمیر کے تئیں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ کسی کو اتنا مجبور بھی نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ہتھیار اٹھا لے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی نوجوانوں اور خواتین کو بھی انتخابی میدان میں اتارے گی اور غیرمسلموں کو بھی پارٹی کے ٹکٹ دیے جائیںگے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو ہندوستانی شہری ہونے کے ناطیجو حقوق ملنے چاہئیں ، صحیح معنوں میں ابھی تک وہ نہیں مل پائے ہیں۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ کب حالات بدلیں اور ان کی جان اور مال کو خطرہ پیدا ہوجائے۔ ملک کے موجودہ نظام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب بنانے کا ہی کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی مسلمانوں کوان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کرے گی۔ مسلمانوں کو ریزرویشن دلانے، اسلامی بینکنگ نظام کا قیام اور سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرانے پر بھی زور دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مہنگائی اور بدعنوانی جیسے ایشو بھی اٹھائے جائیںگے۔

ویلفیئر پارٹی کے نشانے پر سب سے پہلے اترپردیش کا الیکشن ہے۔ فی الحال اس پارٹی کا دخل جنوب کی ریاستوں اور اترپردیش کی سیاست میں ہوگا۔ اگر جماعت اسلا می اترپردیش کے الیکشن میں اپنی طاقت لگادے اور اگر اسے مسلمانوں کی حمایت ملی تو ملک کی سیاست میں سونامی آسکتی ہے، جس کا اثر ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی پر پڑے گا۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور سب سے بڑا نقصان سماجوادی پارٹی کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا اعلان ہوتے ہی سماجوادی پارٹی سے تیکھا رد عمل سامنے آیاہے۔ سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور ترجمان موہن سنگھ نے کہا کہ یہ سب بی جے پی کا کھیل ہے اور کچھ نہیں، عوام بے وقوف نہیں ہیں۔ لوگ سب جانتے ہیں۔ اگر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا الیکشن لڑتی ہے تو عوام اس کے امیدواروں کو ر جیکٹ کردیںگے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کا سیاست میں کوئی کام نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے مذہبی کاموں پر ہی دھیان دیں۔ غور طلب ہے کہ اترپردیش کے زیادہ تر مسلمان سماجوادی پارٹی کے حامی رہے ہیں۔ ایسے میں نئی پارٹی کے آجانے سے سماجوادی پارٹی کے مسلم ووٹ بینک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ نقصان صرف سماجوادی پارٹی کا ہی نہیں ہوگا۔ راہل گاندھی کانگریس پارٹی کو پھر سے مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کا مظاہرہ اچھا رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پوروانچل کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کو زبردست حمایت ملی۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت کی طاقت بھی انہیں علاقوں میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کانگریس پارٹی سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرانے میں اب تک ناکام رہی ہے، جس سے کانگریس پارٹی کی مسلم حمایت کم ہونا تقریباً طے ہے۔ فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی محمد مکرم احمد کا کہنا ہے کہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کا سیاست میں آنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی پارٹی ہو۔ ایسی پارٹی جو ایمانداری کے ساتھ قوم کی ترقی کے لیے کام کرے۔ جب تک مسلمانوں کی اقتدار میں حصہ داری نہیں ہوگی، تب تک ان کی حالت بہتر ہونے والی نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی کانگریس جیسی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش کام نہیں کیا ہے۔

مسلمانوں کی حالت دلتوں سے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ دلتوں کی ملک میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی آواز کو اٹھانے کے لیے ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے، اس میں دورائے نہیں ہوسکتی ہے، لیکن اس پارٹی کے الیکشن میں اترتے ہی اسے سیکولر پارٹیوں کی مخالفت جھیلنی پڑ سکتی ہے۔ کل تک جو لیڈران جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی فائدے کے لیے اچھے رشتے رکھتے تھے، وہی اس پارٹی کے سب سے بڑے دشمن بن جائیںگے۔ اس پارٹی کو مسلم لیڈران کی مخالفت بھی جھیلنی پڑے گی۔ خاص طور پر ان مسلم لیڈران کی جو مسلم ووٹ بینک کا خواب دکھا کر مختلف پارٹیوں میں مضبوط عہدوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اس پارٹی پر الزامات بھی لگیںگے۔ مسلم لیڈر ہی کہیں گے کہ جماعت نے کبھی مسلمانوں کا بھلا نہیں کیا تو اس کی پارٹی کون سا قوم کو نہال کر دے گی۔اس پارٹی پر یہ بھی الزام لگے گا کہ جماعت نے الیکشن کے دوران بی جے پی کا ساتھ دیا ہے، ان سب سوالوں کا جواب دینا مشکل ہوگا۔مشکل اس لیے کیونکہ یہ پارٹی جتنی مظبوط ہوگی بی جے پی کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔

ویلفیئر پارٹی کی شروعات اچھی ہے۔ آئیڈیا لوجی کے نام پرا مریکہ، عالم کاری، لبرل ازم اور بازاری پن کی مخالفت انہیں عوام سے جوڑے گی۔ جماعت کے پاس مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ اس کا بھی فائدہ ملے گا۔کارکنان کی کمی نہیںہوگی، لیکن اس پارٹی کو ابھی کئی مشکلوں کا سامنا کرنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کے پاس کوئی مقبول عام لیڈر نہیں ہے۔پارٹی نے مسلم سماج کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے بینر میں شامل تو کیا ہے، لیکن سیاست کی خاصیت یہ ہے کہ بغیر لیڈر شپ کے پارٹی بکھرنے لگتی ہے۔پارٹی کا لیڈر بننے کی مقابلہ آرائی میں لیڈران آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ویلفیئر پارٹی کے سامنے قیادت کا بحران ہے۔ کسی بھی مسلم پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے پاس ایسا لیڈر ہو جو نہ صرف مسلم سماج کا لیڈر ہو بلکہ اسے ملک کے دوسرے سماج کے لوگ بھی اپنا لیڈر مانیں۔ اب ایسا لیڈر کہاں سے آئے گا یہی جماعت اسلامی کی سب سے بڑی چنوتی ہے۔


फ़िरदौस ख़ान का फ़हम अल क़ुरआन पढ़ने के लिए तस्वीर पर क्लिक करें

या हुसैन

या हुसैन

फ़िरदौस ख़ान की क़लम से

Star Web Media

सत्तार अहमद ख़ान

सत्तार अहमद ख़ान
संस्थापक- स्टार न्यूज़ एजेंसी

ई-अख़बार पढ़ें

ब्लॉग

  • अच्छा इंसान - अच्छा इंसान बनना सबसे ज़्यादा ज़रूरी है, अपने लिए भी और दूसरों के लिए भी. एक अच्छा इंसान ही दुनिया को रहने लायक़ बनाता है. अच्छे इंसानों की वजह से ही दुनिय...
  • कटा फटा दरूद मत पढ़ो - *डॉ. बहार चिश्ती नियामतपुरी *रसूले-करीमص अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि मेरे पास कटा फटा दरूद मत भेजो। इस हदीसे-मुबारक का मतलब कि तुम कटा फटा यानी कटा उसे क...
  • Good person - It is most important to be a good person, for yourself and for others. A good person makes the world worth living in. The world exists because of good pe...
  • میرے محبوب - بزرگروں سے سناہے کہ شاعروں کی بخشش نہیں ہوتی وجہ، وہ اپنے محبوب کو خدا بنا دیتے ہیں اور اسلام میں اللہ کے برابر کسی کو رکھنا شِرک یعنی ایسا گناہ مانا جات...
  • संग्रहणीय पुस्तक है नवगीत कोश - *फ़िरदौस ख़ान*सुप्रसिद्ध कवि एवं गीतकार डॉ. रामनेही लाल शर्मा ‘यायावर’ द्वारा लिखित ‘नवगीत कोश’ पढ़ने का मौक़ा मिला। इसे पढ़कर लगा कि अगर इसे पढ़ा नहीं हो...
  • 25 सूरह अल फ़ुरक़ान - सूरह अल फ़ुरक़ान मक्का में नाज़िल हुई और इसकी 77 आयतें हैं. *अल्लाह के नाम से शुरू, जो बड़ा मेहरबान निहायत रहम वाला है*1. वह अल्लाह बड़ा ही बाबरकत है, जिसने हक़ ...
  • ਅੱਜ ਆਖਾਂ ਵਾਰਿਸ ਸ਼ਾਹ ਨੂੰ - ਅੱਜ ਆਖਾਂ ਵਾਰਿਸ ਸ਼ਾਹ ਨੂੰ ਕਿਤੋਂ ਕਬੱਰਾਂ ਵਿਚੋਂ ਬੋਲ ਤੇ ਅੱਜ ਕਿਤਾਬੇ-ਇਸ਼ਕ ਦਾ ਕੋਈ ਅਗਲਾ ਵਰਕਾ ਫੋਲ ਇਕ ਰੋਈ ਸੀ ਧੀ ਪੰਜਾਬ ਦੀ ਤੂੰ ਲਿਖ ਲਿਖ ਮਾਰੇ ਵੈਨ ਅੱਜ ਲੱਖਾਂ ਧੀਆਂ ਰੋਂਦੀਆਂ ਤ...

एक झलक

Followers

Search

Subscribe via email

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

साभार

इसमें शामिल ज़्यादातर तस्वीरें गूगल से साभार ली गई हैं