ज़ाते-हक़ का है आईना मुरशिद।
मुर्तज़ा मुस्तफ़ा ख़ुदा मुरशिद।
ذاتِ حق کا ہے آئینہ مرشد۔
مرتضیٰ مصطفیٰ خدا مرشد۔
दीनो-दुन्या की हर अता मुरशिद।
मज़हरे-हक़्क़ो हक़नुमा मुरशिद।
دین و دنیا کی ہر عطا مرشد۔
مظہرِ حق و حق نما مرشد۔
मरकज़े-रुश्द ओ हिदायत हैं,
रहबरो-हादी रहनुमा मुरशिद।
مرکزِ رشد و ہدایت ہئیں،
رہبر و ہادی رہنما مرشد۔
आप को पाया साहिबे-मंज़िल,
ता ज दा रे-फ़ ना बक़ा मुरशिद।
آپ کو پایا صاحبِ منزل،
تاجدارِ فنا بقا مرشد۔
जामो-मीना-है और मयकश है,
मयकदा मय है साक़िया मुरशिद।
جام و مینا ہےاورمئکش ہے،
میکدہ مئے ہے ساقیا مرشد۔
इस्म-आज़म है नाम, चहरे से,
दोनों आलम का मुद्दआ मुरशिद।
اسم اعظم ہےنام،چہرےسے،
دونوں عالم کا مدعا مرشد۔
बरहमन साक़िया इमाम हो तुम,
कितने पाकीज़ा पारसा मुरशिद।
برہمن ساقیا امام ہو تم،
کتنے پاکیزہ پارسا مرشد۔
हों फ़ना फ़िर्रुसुल फ़ना फ़िल्लाह,
काश! कर लें मुझे फ़ना मुरशिद।
ہوں فنا فی الرسل فنافی اللہ،
کاش!کر لیں مجھے فنا مرشد۔
हाथ पकड़े रहो अक़ीदत से,
ला मकाँ का हैं रास्ता मुरशिद।
ہاتھ پکڑے رہو عقیدت سے،
لامکاں کاہئیں راستہ مرشد۔
है यदुल्लाह फ़ौक़ ऐदीहिम,
दस्त दस्ते-ख़ुदा तिरा मुरशिद।
ہے ید اللہ فوق ایدیہم،
دست دستِ خداترا مرشد۔
बुतशिकन, बुतपरस्,बुतों वाला,
एक सूरत का बुतकदा मुरशिद।
بتشکن بتپرس بتوں والا،
ایک صورت کابتکدہ مرشد۔
ताक चहरा "बहार" सुब्हो-मसा,
ला पता का हसीं पता मुरशिद।
تاک چہرہ بہآرصبح ومسا،
لا پتہ کا حسیں پتہ مرشد
ملک کی 32 فیصد آ بادی غریبی سطح کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ، جو فصل کاٹے جانے کے بعد کھیت میں بچے ہوئے اناج اور بازار میں پڑی گلی سڑی سبزیاں سمیٹ کر کسی طرح اس سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔بڑے شہروں میں بھی بھوک سے بے حال لوگوں کو کوڑے دانوں میں سے روٹی یا بریڈ کے ٹکڑوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ روزگار کی کمی اور غریبی کی مار کی وجہ سے کتنے ہی خاندان چاول کے کچھ دانوں کو پانی میں ابال کر پینے کو مجبور ہیں۔ ایک طرف گوداموں میں لاکھوں ٹن اناج سڑتا ہے تو دوسری طرف لوگ بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں۔ایسی حالت کے لیے کیا انتظامیہ سیدھے طور پر قصوروار نہیں ہے؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت بل کو منظور کرانے کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنائے کہ اس منصوبے پر ایمانداری سے عمل ہو۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک غریبوں کی بھلائی کے لیے منصوبے تو کئی بنائے گئے ہیں لیکن لال فیتہ ہی کی وجہ سے وہ محض کاغذوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے ۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تو اسے قبول کرتےہوئے یہاں تک کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے چلا ایک روپیہ غریبوں تک پہنچتے پہنچتے پندرہ پیسے ہی رہ جاتا ہے۔
ملک میں ہر روزقریب سوا آٹھ کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں، جبکہ ہر سال لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اناج کی بربادی پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے مرکزی سرکار سے کہا تھا کہ گیہوں کو سڑانے سے اچھا ہے، اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کورٹ نے اس بات پر بھی حیرانی جتائی تھی کہ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں اناج سڑ رہا ہے، وہیں تقریبا 20 کروڑ لوگ قلت غذا کے شکار ہیں۔ گزشتہ سال 12 اگست کو سماعت کے دوران جسٹس دلویر بھنڈاری اور جسٹس دیپک ورما کی بنچ نے حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ہر صوبے میں ایک بڑا گودام بنایا جائے اور ہر ایک ڈویژن ، ضلع میں بھی گودام بنائے جائیں، کورٹ نے یہ بھی کہا کہ خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کو مضبوط کیا جائے۔ساتھ ہی یہ یقینی بنایا جائے کہ مناسب قیمت کی دکانیں مہینے بھر کھلی رہیں۔ اس سے پہلے 27 جولائی کو سنوائی میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، وہاں اناج کا ایک بھی دانا بیکار چھوڑنا گناہ ہے۔ مگر کورٹ کے حکم پر کتنا عمل ہوا، کسی سے چھپا نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ ماہ تک پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت لوگوں کو اناج تقسیم کیا گیا، لیکن اس میں بھی دھاندلی کیے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔
پچھلے کافی عرصے سے ہر سال لاکھوں ٹن گیہوں برباد ہو رہا ہے۔ بہت سا گیہوں کھلے آسمان کے نیچے بارش میں بھیک کر سڑ جاتا ہے۔ وہیں گوداموں میں رکھے اناج کا بھی 15 فیصد حصہ ہر سال خراب ہوجاتا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق، انڈین فوڈ کارپوریشن (ایف سی آئی) کو گوداموں میں سال 1997 سے 2007 کے دوران 1.83 لاکھ ٹن گیہوں، 6.33 لاکھ ٹن چاول ، 2.20 لاکھ ٹن دھان اور 111 ٹن مکا سڑ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کولڈ اسٹوریج کی کمی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے کی سبزیاں اور پھل بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق، پچھلے چھ برسوں میں پورے ملک کے گوداموں میں 10 لاکھ 37 ہزار 738 ٹن اناج سڑ چکا ہے۔ ساتھ ہی ان گوداموں کی صفائی پر تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ایف سی آئی کے مطابق، پچھلے سال جنوری تک 10,688 لاکھ ٹن اناج خراب ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال دو لاکھ ٹن اناج خراب ہو جاتا ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق، پچھلے سال سرکاری ایجنسیوں نے چھ کروڑ ٹن اناج خریدا، جبکہ گودام میں 447.09 لاکھ ٹن اناج رکھنے کی صلاحیت ہے۔ ایسے میں باقی بچے اناج کو کھلے آسمان کے نیچے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً 28 ہزار کروڑ روپے کا اناج کھلے میں پڑا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک تو پہلے ہی گوداموں کی کمی ہے، اس کے باوجود سرکاری گوداموں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو کرائے پر دے دیا جاتا ہے اور اناج کھلے میں سڑتا رہتا ہے۔ جن گوداموں میں اناج رکھنے کی جگہ بچی ہوئی ہے،لا پرواہی کی وجہ سے وہاں بھی اناج نہیں رکھا جاتا ہے۔ کھلے میں پڑے اناج کو ترپال یا پلاسٹک شیٹ سے ڈھک دیا جاتا ہے، لیکن بارش اور پانی بھر جانے کی وجہ سے اناج محفوظ نہیں رہ پاتا۔ پانی میں بھیگے اناج میں کونپل پھوٹنے لگتی ہے اور کچھ دنوں بعد سڑ جاتا ہے۔گوداموں میں رکھے اناج کو کیڑوں اور چوہوں سے بچانے کے بھی انتظام نہیں کیے جاتے، جس سے اناج میں کیڑے لگ جاتے ہیں اور اناج کو چوہے کھا جاتے ہیں۔ افسران کے ذریعہ چوری چھپے سرکاری اناج بیچنے کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔ گوداموں سے کم ہوا اناج چوہوں کے حصے میں لکھ دیا جاتا ہے۔
حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف ملک کے پاس اناج کا اتنا ذخیرہ ہے کہ اسے رکھنے تک کی جگہ نہیں ہے، دوسری طرف ملک کی ایک بڑی آبادی کو پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہو پاتا ہے۔ یہ آبادی فاقہ کشی کی لپیٹ میں ہے ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے 88 ملکوں کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کو 66 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ہندوستان کے اندر پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں کی خوراک میں کمی آئی ہے۔دیہاتی علاقوں میں ہر آدمی کی اوسطاً خوراک 1972-1973 میں 2266 کیلوری یومیہ تھی، جو اب کم ہو کر 2149 رہ گئی ہے۔ ملک میں آبادی 1.9 فیصد کے اوسط سے بڑھی ہے، وہیں غذائی پیداوار 1.7 فیصد کے اوسط سے کم ہوا ہے۔
قومی خاندانی صحت سروے کی رپورٹ کے مطابق ، ملک میں 46 فیصد بچے انیمیا کا شکار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میںتین سال سے کم عمر کے قریب 47فیصد بچے کم وزن کے شکار ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی جسمانی نشو و نما بھی رک گئی ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں 33.1 فیصد بچے انیمیا کی لپیٹ میں ہیں، جبکہ مدھیہ پردیش میں 60.3 فیصد، جھارکھنڈ میں 59.2 فیصد ، بہار میں 58 فیصد، چھتیس گڑھ میں 52.2 فیصد، اڑیسہ میں 44 فیصد، راجستھان میں 44 فیصد، ہریانہ میں 41.9 فیصد، مہاراشٹر میں 39.7 فیصد ،اتراکھنڈ میں 38 فیصدی، جموں و کشمیر میں 29.4 فیصد اور پنجاب میں 27 فیصد بچے انیمیا کی زد میں ہیں۔یونیسیف کے ذریعہ جاری ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے کل انیمیا زدہ بچوں میں سے ایک تہائی آبادی ہندوستانی بچوں کی ہے۔ہندوستان میں پانچ کروڑ 70 لاکھ بچے انیمیا کے شکار ہیں۔ پوری دنیا میں کل 14 کروڑ 60 لاکھ بچے انیمیا کی زد میں ہیں۔ اس اضافے کی موجودہ رفتار ایسی ہی رہی تو 2015 تک انیمیا کا اوسط آدھا کر دینے کا ہدف 2025 تک بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ رپورٹ میں ہندوستان میں انیمیا کے اوسط کا مقابلہ دیگر ملکوں سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں انیمیا کا اوسط ایتھوپیا ، نیپال اور بنگلہ دیش کے برابر ہے۔ ایتھوپیا میں انیمیا کااوسط 47 فیصد اور نیپال اور بنگلہ دیش میں 48-48 فیصد ہے، جو چین کے آٹھ فیصد، تھائی لینڈ کے 18 فیصد اور افغانستان کے 39 فیصد کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
مرکزی حکومت نے غذائی پیداوار میں آئے ٹھہرائو اور بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگست 2007 میں مرکز ی اسپانسرڈ غذائی تحفظ مشن اسکیم شروع کی تھی،اس کا مقصد گیہوں، چاول اور دال کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا، تاکہ ملک میں غذائی تحفظ کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ قومی غذائی تحفظ مشن کے تحت چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے 14 ریاستوں کے 136 ضلعوں کومنتخب کیا گیا ہے۔ ان ریاستوں میں آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اڑیسہ ، تمل ناڈو، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ گیہوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 9 ریاستوں کے 141 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں پنجاب ، ہریانہ، اتر پردیش ، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اسی طرح دال کی پیداوار بڑھانے کے لیے14 ریاستوں ، کے 171 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں آندھرا پریش، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر، اڑیسہ راجستھان، تمل ناڈو، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ان ضلعوں کے 20 ملین ہیکٹیئر دھان کے علاقے، 13 ملین ہیکٹیئر گیہوں کے علاقے اور 4.5 ملین ہیکٹیئر دال کے علاقے شامل کیے گئے ہیں۔ جو دھان اور گیہوں کے کل بوائی علاقے کا 50 فیصد ہے۔ دال کے لیے مزید 20 فیصدی علاقے تیار کیے جائیں گے۔در اصل بڑھتی مہنگائی نے کم آمدنی والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں صرف ٖغذائی تحفظ بل بنانے سے کچھ خاص ہونے والا نہیں ہے۔ حکومت کو ہر اعتبار سے عوام کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔
صوبائی وزیر برائے محنت اور روزگار ہریش راوت کے مطابق، 31مارچ تک دو لاکھ 88ہزار 462بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا جا چکا ہے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے 7015.46لاکھ روپے مہیا کرائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر ضلع میں سروے کرانے کے لئے مختلف ریاستی حکومتوں کو 676لاکھ روپے دئے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر کی ہدایات کے مطابق بندھوا مزدورسسٹم استیصال قانون 1976کے تحت عمل درآمد کی نگرانی کے لئے لیبر اینڈ امپلائمنٹ سکریٹری کی صدارت میں ایک خصوصی گروپ بھی تشکیل کیا گیا ہے، جس کی اب تک علاقہ در علاقہ 18میٹنگیں ہو چکی ہیں۔ حکومت نے 1980میں اعلان کیا تھا کہ اب تک ایک لاکھ 20ہزار 500بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا جا چکا ہے۔ لیبراینڈ امپلائمنٹ منسٹری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ملک میں19ریاستوں سے 31مارچ تک دو لاکھ 86ہزار 612بدھوا مزدوروں کی نشاندہی کی گئی اور انہیں آزاد کرایا گیا۔ نومبر تک صرف ایک ہی ریاست اتر پردیش میں سے 28ہزار 385میں سے صرف 58بندھوا مزدوروں کو بازآباد کیا گیا، جبکہ بقیہ 18ریاستوں میں ایک بھی بندھوا مزدوروں کی نو آبادکاری نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق، ملک میں سب سے زیادہ تمل ناڈو میں65ہزار 573بندھوا مزدوروں کی نشاندہی کر کے انہیں آزاد کرایا گیا۔ کرناٹک میں 63ہزار 437اور اڑیسہ میں 50ہزار 29بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 19ریاستوں کو 68کروڑ 68لاکھ 42ہزار روپے کی مرکزی امداد مہیا کرائی گئی، جس میں سب سے زیادہ رقم 16کروڑ 61لاکھ 66ہزار 94روپے راجستھان کو دئے گئے۔ 15کروڑ 78لاکھ 18ہزار روپے کرناٹک اور 9کروڑ 3 لاکھ 34ہزار روپے اڑیسہ کو مہیا کرائے گئے۔ اسی میعادکے دوران سب سے کم مرکزی امداد اتراکھنڈ کو مہیا کرائی گئی۔ اتر پردیش کو 5 لاکھ 80ہزار روپے کی مرکزی امداد فراہم کرائی گئی۔ علاوہ ازیں ارونا چل پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، دہلی، گجرات اور اتراکھنڈ کو 31مارچ 2006تک بندھوا بچوں کا سروے کرانے اور بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے پروگرام کرنے کے لئے 4کروڑ 20لاکھ روپے دئے گئے۔لیبر منسٹری کے ڈائریکٹر جنرل انل سوروپ کے مطابق بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری کے لئے، انہیں آزاد کرنے کے بعدفوری طور پرہر مزدورکو ایک ہزار روپے کی فوری امداد،19ہزار روپے کی بازآبادکاری امداد، رہائش، زراعتی زمین اور روزگار کے وسائل مہیا کرانے کی تجویز ہے۔راجستھان کے چیف سکریٹری برائے لیبر اینڈ پلاننگ منوہر کانت کے مطابق، ریاست میں1976سے اب تک 11ہزار 319بندھوا مزدوروں کی نشاندہی کی گئی۔ ان میں سے 9ہزار 112مزدوروں کی بازآبادکاری کی گئی، جبکہ 1467کو دیگر دوسری ریاست میں بازآبادکاری کے لئے بھجوایا گیا۔ ریاست میں بندھوا مزدور رکھنے والوں کے خلاف 370چالان پیش گئے گئے، جن میں137معاملے خارج، 75میں جرمانہ،56معاملوں میں سزا دی گئی اور 102معاملوں میں ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ راجستھان میں عمارت اور دیگر تعمیری ورکرس ویلفیئر ایکٹ کے تحت 50لاکھ آلات کی شکل میں وصول کئے گئے اور 7ہزار 497مزدوروں کا رجسٹریشن کیا گیا۔
جے پور کے سانگانیر میں مزدوری کا کام کر رہے ستیہ پرکاش نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ الور کے ساگر اینٹ بھٹے پر کام کرتا تھا، جہاں اسے کنبہ سمیت بندھوا مزدور کے طور پر رکھا گیا تھا۔ ٹھیکیدارانہیں نہ تو پوری مزدوری دیتے تھے اور نہ اسے جانے دیتے تھے۔ یہاں مزدوروں سے 15سے 16گھنٹے کام کرایا جاتا ہے۔ ان مزدوروں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔گزشتہ مئی ماہ میں بندھوا مکتی مورچہ کی شکایت پر ایس ڈی ایم، نائب تحصیلدار اور لیبر انسپکٹر نے ریونیو اسٹاف کے ساتھ بھٹے پر چھاپہ مار کر مزدوروں کو آزاد کرایا۔ستیہ پرکاش کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مزدوروں کو بھی آزاد کرایا گیا۔انتظامیہ نے انہیں بقایہ ادائیگی کے علاوہ کرایا بھی دلوایا۔ ملک میں ایسے ہی کتنے بھٹے اور دیگر کاروباری دھندے ہیں، جہاں مزدوروں کو بندھوا بنا کر ان سے سخت محنت کرائی جاتی ہے اور مزدوری کے عوض میںبرائے نام پیسے دئے جاتے ہیں، جن سے انہیں دو وقت کی بھرپیٹ روٹی تک نصیب نہیں ہو پاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،لیکن جب بندھوا مکتی مورچہ جیسی تنظیموں کے ذریعہ انتظامیہ پر دبائو بنایا جاتا ہے تو افسران نیند سے بیدار ہوتے ہیںاور کچھ جگہوں پر چھاپہ ماری کی رسم ادا کر لیتے ہیں۔ مزدور سریندر کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو ٹھیکیداروں کی من مانی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ انہیں ہر روز کام نہیں مل پاتا، اس لئے وہ کام کی تلاش میں اینٹ بھٹوں کا رخ کرتے ہیں، مگر وہاں بھی انہیں غیر انسانی صورتحال میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی مزدور بیمار ہو جائے تو اسے دوا ملنا تو دور ، آرام تک کرنے نہیں دیا جاتا ۔
دراصل، انگریزی دور حکومت میں نافذ کئے گئے زمینی بندوبست نے ہندوستان میں بندھوا مزدوری کی بنیادڈالی تھی۔اس سے پہلے تک زمین کو جوتنے والا زمین کا مالک ہوتا تھا۔ زمین کی ملکیت پر راجائوں اور جاگیرداروں کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ انہیں وہی ملتا تھا، جو ان کا واجب حق ہوتا تھا اور یہ کلپیدوار کا ایک فیصد حصہ ہوتا تھا۔ کسان ہی زمین کے مالک ہوتے تھے۔ حالانکہ زمین کا اصلی مالک راجا تھا۔ پھربھی ایک بار جوتنے کے بعد ملکیت کسان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ راجا کی بادشاہت اور کسان کی ملکیت کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی تنازعہ نہیںہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی گئی، لیکن کسانوں کی زمین کی ملکیت پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑا، راجا اور کسانوں کے درمیان کوئیثالث بھی نہیں تھا۔ زمینی نظم ٹھیک سے چلانے کے لئے راجا گائووں میں مکھیا مقرر کرتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی گئی اور زمین کے مالک کا درجہ رکھنے والا کسان محض زراعتی مزدور بن کر رہ گیا۔
کہنے کو تو لیبر سسٹم ایکٹ 1976کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی بندھوا مزدوری پر پابندی عائد ہو چکی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیبر قانونوں کی لچک کے سبب مزدوروں کے استحصال کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی ہمارے ملک میں مزدوروں کی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے۔ خواندگی اور بیداری نہ ہونے کے سبب اس طبقہ کی جانب کسی کا دھیان نہیں گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے، تاکہ مزدوروں کو استحصال سے نجات مل سکے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مزدور بھی اس ملک کی آبادی کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں اور ملک کی ترقی کی علامت بنیں فلک بوس عمارتوں میں ان کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔
وتا ہے۔ ملک میں تقریباً 1200 سیاسی جماعتیں ہیں، ان میں سے 6 نیشنل پارٹی، 44 صوبائی پارٹی اور 1152 مقامی پارٹیاں ہیں۔ حال ہی میں بابا رام دیو نے بھی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں ایک اور پارٹی نے جنم لیا ہے۔ یہ پارٹی اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیوںکہ یہ ملک کی مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند کی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس پارٹی کا نام ’’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘‘رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟ اس پارٹی کی آئیڈیالوجی کیا ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی پارٹی ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی؟ کیا یہ انتخاب لڑے گی؟ کن کن پارٹیوں سے یہ اتحاد قائم کرسکتی ہے؟ اس پارٹی کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ویژن کیا ہیں؟ اس پارٹی سے کن پارٹیوں کو فائدہ ہوگا اور کن پارٹیوں کو نقصان ہوگا؟ ایسے کئی سوال ہیں، جن کے بارے میں ملک کے عوام اور خاص طور سے مسلمانوں کو جاننا ضروری ہے۔