کسی فن پارے پر لکھنا کتنا جاںفشانی کا کام ہے، اس کا کچھ کچھ اندازہ مجھے بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک تنقید نگار کا قلم تحریر کے لیے ہمہ وقت آزاد ہے ، وہ جو محسوس کرتا ہے ،سمجھتا ہے سوچتا ہے، اور اس کو ٹھیک لگتا ہے وہی لکھتا ہے۔ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ دیانت داری کے ساتھ آپ جیسے زی شعور، اور صاحب دانش اب کم ہی ہیں جو بے باکی کے ساتھ اپنا مطمع نگاہ بیان کرتے ہیں۔میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ایک کم علم شخص ہوں اور محض کچھ تک بندی کرنے کی حد تک شاعر ہوں مگر پھر بھی گزشتہ 50 برسوں سے اردو شاعری کی ہر نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہوں (خواہ وہ نگاہ خام ہی سہی ). دوسرا اعتراف یہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں وائس ٹائپنگ سے ٹائپ کرتا ہوں اردو کی - بورڈ پر ٹائپ کرنے کی مجھے مشق نہیں ہے۔
بہرحال بہت مبارک باد کہ آپ نے شارق کیفی کی جملہ شاعری کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ان کی غزلوں ، ان کی نظموں اور ان کے تخیل پر کھل کر بات کی۔
اپ نے جس نظم کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ یہ محض ہیت کے اعتبار سے نظم ہے تخیل اور فلسفے سے دور ۔ اس کے آخری مصرعے ایک بار پھر پڑھتے ہیں۔
اب مجھے اس زمین پر نہیں لوٹنا
حاضری کے بغیر
اس زمین سے میرا لوٹنا ہی یہ ثابت کرے گا کہ میں
اک فرشتہ تھا
اور اس جہاں میں غلط آگیا تھا
میری ناقص فہم کے مطابق ایسی نظمیں جن میں ظاہر ہے کہ ہیت تو ہو ہی،مگر جو کسی غیر معمولی تخیل کو لے کر ایک ایسے نفسیاتی موضوع پر لکھیی جائیں یا یوں کہیے کہ کہی جائیں کہ جن کی دسترس یعنی جن موضوعات کی دسترس عوام الناس کو کم ہی میسر ہوتی ہے یا پھر بہت غور کرنے پر وہ سمجھتا ہے، ایک قسم کا فلسفہ رکھتی ہیں۔ زندگی اور موت کا فلسفہ، بیماری اور بیماری کے بعد شفایاب نہ ہونے کا کرب ۔
بس بہت جی لیے۔۔۔۔سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس بلا کے کرب میں ڈوب کر کہی گئی نظم ہوگی اور ظاہر ہے شاعر کی نگاہ سماج کی اس باریک نبض پر ہوگی جس میں بحیثیت انسان اس کی پہچان بس ایک مریض کی حاضری بھر،کسی ہسپتال میں پکارے جانے بھر رہ گئی ہو۔میں عرض کر دوں یہ جیتا جاگتا مریض، کبھی بے مرض جسم تھا تب اس کی کچھ اور پہچان تھی تب اس کا نام لینے والے اور نام سننے والے کچھ اور لوگ رہے ہوں گے جہاں اس کو اپنا نام اور اپنی پہچان بہت عزیز ہوگی مگر ایک لمبے عرصے تک بیماری سے لاغر ہو جانے کے بعد یہ جسم اب بس نجات چاہتا ہے نجات یعنی موکش۔ شارق کیفی کی اس نظم کی نفسیات اور فلسفہ حیران کر دینے والا ہے۔
میں عرض کر دوں کہ شارق کیفی کے یہاں جو بھی مضامین اپنی نظموں میں برتے گئے ہیں وہ حیران کن حد تک انسانی زندگی کے بہت قریب ہیں، انسانی نفسیات کے بہت قریب ہیں، انسانی دکھوں اور خوشیوں کے بہت قریب ہیں، آلام و آفات کے بہت قریب ہیں، مسائل کے بہت قریب ہیں،اکثر ان نظموں میں متکلم پس پردہ ہے وہ شاعر نہیں ہے بلکہ کسی اور کی زبان اور کسی اور کا احساس ہے۔ یہ حیران کن تجربے کہیں اور دیکھنے کو مشکل سے ہی ملیں گے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ" گھسے پٹے" خیالات ہیں۔ قابل احترام پروفیسر صاحب!
اس دنیا کے چپے چپے اور خطے خطے میں سوچنے والے ذہن آباد ہیں جن کے وہی مسائل ہیں جو دوسروں کے ہیں ان کے دکھ درد،ان کے فراق و وصال،ان کی شفایابی اور امراض،ان کی نفسیات،ان کے تجربات،ان کے تجزیات،ان کی اکتاہٹیں،ان کی مسکراہٹیں،ان کے نظریات گویا سب کچھ مشترک ہیں۔اب ان مشترک قدروں میں تقریبا ایک جیسی باتیں سوچی جاتی ہیں۔مضامین وہی رہتے ہیں بس ان کو پیش کرنا اپنے طور پر ان کا تجزیہ کرنا اپنے طریقے سے ان کو سمجھانا اپنے انداز میں ان کو نظم کے پیکر میں ڈھالنا یہ کمال ایک شاعر کا ہوتا ہے۔میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کروں کہ مضامین کی کاشت ممکن نہیں ہے ہاں ان کی دریافت مشکل ہے۔مضامین تو گھسے پٹے ہی رہیں گے مگر کون سے ایسے شعراء ہیں جن کے مضامین اپنی سالمیت کے اعتبار سے اول صف میں کھڑے نظر آئیں
شارق کیفی جب اپنا پہلا مجموعہ کرام عام سا رد عمل ترتیب دے رہے تھے ، تو ادب کا ایک دور آخری سانسیں لے رہا تھا یعنی جدید طرز کی شاعری اختتام پذیر ہو رہی تھی یا ہو گئی تھی اور ما بعد جدید نظریات اور افکار جنم لے رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ن م مراشد ، میرا جی یا اور دیگر اسی صف کے شعراء اپنے حصے کا کام کر چکے تھے اب باری تھی ما بعد جدید شعرا کی کہ وہ مسائل کو اپنے طور پر سوچیں اور اپنے طور پر برتیں ، چنانچہ شارق کیفی نے ایسا ہی کیا۔
آپ کا یہ فرمانا کہ کوئی نظم بھاری بھرکم الفاظ سے بڑی نہیں ہوتی یعنی ڈاکٹر ،رجسٹر، بجلی کے جھٹکے وغیرہ ان الفاظ سے کوئی نظم بڑی ہو جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔مگر بہت ادب کے ساتھ میں عرض کر دوں کہ یہ نظم الفاظ سے بڑی نہیں ہوئی ہے نفسیات سے بڑی ہوئی ہے۔ الفاظ تو گویا دست بستہ کھڑے نظر اتے ہیں۔
آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر، مگر میری التجا ہے کہ ان نظموں کو ایک بار اپ کی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ اپ نے قبرستان کے نل پر ،مشق، کینسر کے مریض کی بڑ بڑ ، ببلو کا بکرا اور محبت کی انتہا نظم ضرور پڑھی ہوں گی۔ یہ محض مثالیں ہیں کہ ایک شاعر جس کی انگلیاں ایک نباض کی طرح ہمیشہ انسانی نفسیات کی کلائی پر رہتی ہیں، جس کے پاس بیانیہ بہت خاص ہے، مضامین دل میں اتر جانے والے ہیں، نظمیں حیران کر دینے والی ہے۔ کیا آپ ما بعد جدید شاعری کے اس خالق کے اس وصف سے اتفاق نہیں کرتے !
میں عرض کر دوں " محبت کی انتہا " ایک عجیب و غریب انداز میں شروع ہوئی نظم ہے جس میں ایک کم سن بچہ اپنے چین اسموکر والد سے ، شدید محبت کرتا ہے مگر ان کی سگرٹ نوشی سے شدید نفرت کرتا ہے اور محبت اور نفرت کا یہ امتزاج اس نفسیاتی سطح تک آکر ایک ہیبت ناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ ہیبت ناکی جو ہمہ وقت شاعر کو اس کے والد کے فوت ہو جانے کے خطرے سے باخبر رکھتی ہے۔ یہ نظم شروع بھی بڑے حسین انداز میں ہوئی ہے
پاپا تم مر جاؤ نہ پاپا
میں تم سے نفرت کرتا ہوں
کش تم لیتے ہو
کھانسی مجھ کو آتی ہے۔۔
اس انداز میں نظمیں کہنے والا شاعر میری نظر میں شارق کیفی کے علاوہ دوسرا نہیں ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :
"میں نے یہ نظمیں بارہا پڑھی ہیں اور ہر بار حیرت زدہ ہوا ہوں یہ نظمیں تقریبا سب کی سب واحد متکلم کی زبان سے ادا کی گئی ہیں۔ لیکن یہ واحد متکلم ایک شخص نہیں۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کسی ایک شاعر کے تخیل یا اس کی شخصیت میں اتنے سارے متکلم اور اتنی طرح کے متکلم جمع ہو گئے ہوں۔ ڈرامے میں یہ یقینا ممکن ہے اگرچہ یہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔۔۔"
لہذا میں ایک ادنی، ناقص العقل، کم علم قاری ہونے کے باوجود آپ سے التماس کروں گا کہ ان نظموں کو ایک بار پھر پڑھیں ممکن ہے آپ کی آرا میں کسی قسم کی تبدیلی واقع ہو
گزشتہ شب بھی یہ کمنٹ میں پوسٹ کرنا چاہ رہا تھا،مگر کسی تکنیکی دقت کی وجہ سے آپ کی وال پر پوسٹ نہیں ہو سکا۔ چنانچہ اس کو اپنی وال پر پوسٹ کر کے اپ کو ٹیگ کر رہا ہوں شکریہ
سہیل آزاد
 

 
 
 
 
 
 
 
 
.jpg) 
.jpg) 
 
 
.jpg) 
 
.jpg) 
 
 
 
 
 Posts
Posts
 
